مشرق کا محاسبہ، مغرب سے درگزر کیوں؟

 1910 ء میں سوشلسٹ خواتین کی عالمی کانفرنس ہوئی،جس میں ستر ممالک سے سیکڑوں خواتین نے شرکت کی اور اس کانفرنس میں مشترکہ طورپر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال 8مارچ کو ورکر خواتین کے عالمی دن کے طورپر منایاجائے ،اس کا پس منظر یہ تھا کہ 8 مارچ 1907 ء میں نیویارک کی لباس سازی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں کارکن عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے ایک مظاہرہ کیااور اس میں مطالبہ کیا تھا کہ دس گھنٹے کام کے عوض ملنے والی ان کی تنخواہ معقول نہیں ،اس لیے اس میں اضافہ کیا جائے ۔1910 ء کی اس تجویز کو1977 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے شرف قبول بخشتے ہوئے ہر سال 8مارچ کو خواتین کاعالمی دن منانے کی منظوری دی اور اب یہ دن دنیا بھر میں زور وشور سے منایا جاتا ہے۔
وطن عزیز میں بھی اس دن کے حوالے سے سول سوسائٹی اور این جی اوز کی جانب سے سیمینارز، کانفرنسوں اور اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے،مختلف شہروں میں واک کی جاتی ہے اور ان خواتین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جاتاہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس دن کی مناسبت سے ہونے والے تمام پروگرامز،ٹاک شوز اور سیمینارز میں خواتین کے حقوق کی آڑ میں اسلام پر تنقید کی جاتی ہے،یہ باور کرایا جاتا ہے کہ خواتین کو حقوق تو مغرب نے دیے ہیں ،اسلام نے عورت کو کیا دیا ہے؟حد تو یہ ہے کہ معاشرے میں عورت پر سماج کے زیر اثر کسی قسم کا تشدد، حق تلفی یا کسی قسم کا ظلم وستم ہورہا ہے تو بڑ ی فراخ دلی سے اسے بھی اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے اور یہ جھوٹ اس شد ومد اور طمطراق سے بولا جاتا ہے کہ عام پاکستانی ،جو حقیقت حال سے واقف نہیں ،واقعی اسلام ہی کوخواتین پر ہونے والے ظلم وستم کا مجرم اوراس کے حقوق کاغاصب تصور کرنے لگتا ہے۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ خواتین کے حقوق سب سے زیادہ مغرب اور یورپ میں پامال ہورہے ہیں۔ حقوق نسواں کے دعویدار ہی ان کا استحصال کررہے ہیں۔مغربی معاشرے نے اپنی بے لگام شہوت کی تسکین کی خاطر عورت کو گھر کی محفوظ چار دیواری سے آزادی کے نام پر باہر نکالا۔وہ جو گھر میں شرافت کا مجسمہ بنکر احترام وتوقیر کی علامت تھی،اس سے اس کی نسوانیت جیسی متاع بے بہا چھین کر ہوسناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنادیا ،اسے عزت وشرافت اور عفت وحیا کے ساتھ والدین ، اولاد، بھائی بہن اور شوہر کی خدمت سے باغی بناکر اجنبی مردوں کی خدمت پر مامور کردیا ۔ ہسپتالوں میں نرس اور تیماردار کے نام سے بھرتی کرکے مریضوں سے زیادہ ڈاکٹر وں کے نخرے برداشت کرنے اور ان کی آؤبھگت کرنے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی ۔ ائیر ہوسٹس کی حیثیت سے اجنبی مسافروں کے سامنے جسم کی نمائش پر مجبور کردیا ۔انجام کارمغرب میں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے،ناجائزبچوں اورکنواری ماؤں کی تعداد آئے روز بڑھ رہی ہے،جس کی وجہ سے خودکشیاں اور طلاقیں بڑھ رہی ہیں۔مغرب ویورپ کے وظیفہ خور چاہتے ہیں کہ مشرقی معاشرے کابھی وہی حال ہواورہمارامعاشرہ اورخاندانی نظام بھی اسی طرح کی شکست وریخت کاشکارہو۔ وطن عزیزکی ماں،بہن، بیٹی کوسمجھ لیناچاہیے کہ اسے حقوق مغرب ویورپ کی اندھی تقلید سے نہیں ،بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام ہی سے ملیں گے۔آج آپ کو جو مقام ملا ہوا ہے وہ اسلام ہی کی دین ہے،ورنہ پہلے عورت کے بارے میں جو نظریات تھے وہ اس سے کہیں مختلف تھے ،ملاحظہ فرمائیے!

چھٹی صدی میں رومیوں کا نظریہ تھا کہ عورت شرانگیز روح ہے۔اسپین کے لوگ کہا کرتے تھے :بری عورت سے بچو اور اچھی عورت کی طرف مائل نہ ہوا کرو۔تحریف شدہ تورات میں اب بھی ایسے جملے ملتے ہیں:عورت موت سے بھی زیادہ تلخ ہے۔عوت سے بچنے والا ہی اﷲ کی نظر میں برگزیدہ ہے۔جرمن معاشرے میں عورت کے حصول ِعلم پر پابندی تھی ۔زمانۂ جاہلیت میں عورت کوکوئی مقام حاصل نہیں تھا،اس دور میں بیٹی کی پیدائش کو عار سمجھااور نومولود بچی کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا،غرض اس معاشرے میں عورت کی عزت وتکریم کا کوئی تصور بھی نہیں پایا جاتاتھا۔اسلام نے آکر عورت کو، جس کو پاؤں کی جوتی جتنی حیثیت بھی حاصل نہ تھی، عزت واحترام کی معراج پر فائزکر کے بلندیٔ رتبہ کے اوج ثریاکاہم نشیں بنایا۔اسلام ہی وہ دین ہے جس نے پہلی مرتبہ عورت کو اپنی ذاتی ملکیت کا حق دیا ، اسے شادی کا فیصلہ اپنی آزادانہ مرضی سے کرنے کا حق دیا ۔ اسے اپنی ذاتی جائیداد رکھنے اور کاروبار کرنے کا حق دیا ۔ اسے وراثت کا حق دیا ۔اسے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ، مردوں کے شانہ بشانہ ، زندگی کے نشیب وفراز میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ۔اگرآج معاشرے میں کہیں عورت کواس کاشرعی حق نہیں مل رہاہے،توقصوراسلام کانہیں،مسلمان کہلانے والے زمانہ ٔ جاہلیت کے پیروکاروں کاہے۔

این جی او ز اور سول سوسائٹی والوں سے سوال تو کیجیے: ملازمت پیشہ خاتون کس کے ہاتھوں ہراساں ہوتی ہے؟خواتین کو سیکریٹری کے طور پر کون لوگ رکھتے ہیں؟ملازم خواتین اپنے ساتھ کام کرنے والے غریب ملازموں کے ہاتھوں زیادہ ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں یا صاحب اور باس لوگوں کے ہاتھوں؟سامانِ تعیش سے غریب ملازم کا ڈیپارٹ آراستہ ہوتا ہے یا صاحب کا دفتر؟جاگیردار کے حجرے سے لے کر خان صاحب کی بیٹھک تک،مل آنر کے آفس سے لے کر سیٹھ صاحب کے بیڈروم تک،عورت کو استحصال کا نشانہ بناے والے کون ہیں؟اسلام پر عمل کرنے والے یا یہ مگرمچھ کے آنسو بہانے والے؛یہ بات محتاج بیان نہیں۔طرفہ تماشا ہے کہ ایک تو عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا ،پھر اس کا استحصال شروع کردیا اور اب اس پر رونا بھی رویا جارہاہے اور عورت کی مظلومیت دکھا دکھا کر پیسا ہڑپ کیا جارہا ہے،بقول شاعر
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307875 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More