خالقِ کائنات نے اس دنیاے رنگ و بو کو وجود بخشا اور
انسان کو اشرف المخلوقات کے خطاب سے سرفراز فرمایااور رشد و ہدایت کے لیے
پے در پے انبیاے کرام علیہم السلام کوانھیں میں سے مبعوث کیا۔پھر ان کے
ماننے والوں کو چند امور کا پابند بنایا۔جو شخص اﷲ تعالیٰ کی ان ہدایات پر
عمل پیرا ہو اس کی کامیابی کا بھی اس کریم مولا نے از خود وعدہ فرمایاہے ،
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کا کوئی لمحہ اس کی ہدایات سے ہٹ کر نہ
گزاریں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی طاعت کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین
سال کے بارہ مہینے
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے : اﷲ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، اس روز سے
جب کہ اس نے آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا۔ اﷲ کی کتاب میں سال کے بارہ
مہینے لکھے ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔(التوبۃ)رسول اﷲ ﷺ نے
ارشاد فرمایا:بلاشبہ زمانہ اپنی اسی اصل حالت پرلوٹ آیا ہے ،جیسا اﷲ تعالیٰ
نے اسے آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے مقدر فرمایا تھا۔سال؛بارہ مہینے کا
ہوتا ہے ،ان میں سے چار مہینے احترام وادب والے ہیں۔تین مہینے مسلسل؛ذی
القعدہ،ذی الحجہ،محرم الحرام اور ایک مہینہ مضر کا رجب ہے ،جو جمادی
الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے ۔(بخاری)
رجب کے معنی
لغت میں ’رجب‘ کے معنی ’ڈر اور تعظیم‘ کے ہیں۔ اسی سے رجب نکلا ہے اور اس
کی جمع ارجاب، رجوب اور رجبۃ اور ارجبۃ آتی ہے ۔ علامہ جزریؒ نے اپنی
کتاب’نہایہ‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ ترجیب کے معنی ’تعظیم کرنے کے ہیں‘۔
اسی وجہ سے عرب رجب کی تعظیم کرتے تھے ۔ماہِ رجب، جمادی الاخریٰ اور شعبان
المعظم کے درمیان والا مہینہ ہے ۔ اسے ’رجبِ مضر‘ بھی کہتے تھے ، کیوں کہ
قبیلۂ مضر اس کی خاص طور پر حرمت وتعظیم کرتے تھے اور رسول اﷲ ﷺ نے یہ جو
ارشاد فرمایاکہ ماہِ رجب ،جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان والا مہینہ ہے
،اس میں اس بات کی تاکید مقصود ہے کہ لوگ ایک ماہ کو ہٹا کر،دوسرے ماہ کی
جگہ دے دیا کرتے تھے ۔(ماثبت بالسنۃ)
اﷲ کا مہینہ
سند کے اعتبار سے ایک کمزور روایت میں آیا ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد
رفرمایا:رجب اﷲ کا، شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (شعب
الایمان) حضرت نبی کریم ﷺ رجب کا چاند دیکھ کر یہ دعا فرماتے تھے
:اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا
رَمَضَانَ۔ اے اﷲ! ہمارے رجب وشعبان میں برکت نصیب فرما اور ہمیں رمضان تک
پہنچادے ۔(عمل الیوم واللیلۃ) اس ایک دعا کے علاوہ اس ماہ سے متعلق دیگر جو
چیزیں عوام میں مشہور ہو گئی ہیں،ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں اور اس ماہ
سے متعلق کوئی خاص عبادت شریعت میں مشروع نہیں ہوئی۔
چند روایات اور ان کا حکم
ماہِ رجب کے مخصوص اعمال سے متعلق چند روایات کتابوں میں مذکور ہیں لیکن ان
کی صحت میں کلام ہے ۔اس لیے کسی مجتہد اور فقیہ نے ان پر اعتماد کیانہ
مسائل کا استنباط۔یہاں ایسی چند روایات اور ان کا حکم بیان کیا جاتا ہے
:(۱)حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے :بے شک!رجب کا مہینہ عظمت
والا ہے ،اس میں نیکیوں(کے بھاؤ میں)اضافہ کر دیا جاتا ہے ،جس نے رجب کے
ایک دن میں روزہ رکھا،وہ ایسا ہے جیسے اس نے ایک سال کے روزے رکھے ہوں۔(کنز
العمال)(۲)رجب کے مہینے میں ایک(ایسی) رات ہے ،جس میں عمل کرنے والے کے لیے
سو سال کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔(شعب الایمان)(۳)حضرت انسؓکی ایک روایت میں
ہے ؛جس نے رجب کے مہینے میں ایک دن روزہ رکھا،اس نے گویا سال بھر کے روزے
رکھے ۔ جس نے اس ماہ میں سات دن کے روزے رکھے ،اس پر جہنم کے ساتوں دروازے
بند کر دیے جاتے ہیں۔ جو آٹھ روزے رکھے ،اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے
کھول دیے جاتے ہیں۔ جو دس روزے رکھے ،وہ اﷲ تعالیٰ سے جو چیز مانگے گااﷲ
تعالیٰ اسے عطافرمائیں گے ۔ جو پندرہ روزے رکھے ، آسمانوں میں منادی کرنے
والا آواز دیتا ہے ؛(اے روزے دار!)تیرے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے او
رتیرے گناہوں کو نیکیوں سے بد ل دیا گیا،اب نیک عمل شروع کرو۔ جوشخص جتنا
زیادہ نیک عمل کرے گا،اسے اتنا زیادہ ثواب دیا جاے گا۔ماہِ رجب میں اﷲ
تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو کشتی میں سوار کیاتو انھوں نے بذاتِ خود بھی روزہ
رکھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی روزے کا حکم دیا۔(شعب الایمان)(۴)حضرت سلمان
فارسیؓسے روایت ہے ، رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:رجب کے مہینے میں ایک دن
اور ایک رات (ایسی ہے)جس نے اس دن کا روزہ رکھا اور رات میں قیام کیا،وہ
شخص ایسا ہے جیسے سو سال تک روزے رکھے اور سو سال تک قیام کرے ۔یہ دن اور
رات ۲۷؍رجب ہے ،اسی میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا تھا۔(شعب
الایمان) (۵)حضرت انسؓسے روایت ہے ،رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جنت میں ایک
نہر ہے ،اسے ’رجب‘کہتے ہیں،اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ
میٹھا ہے ۔جس نے ماہِ رجب میں ایک دن بھی روزہ رکھا،اﷲ تعالیٰ اسے اس نہر
سے سیراب کریں گے ۔(شعب الایمان)(۶)عامر بن شبل فرماتے ہیں،میں نے ابو
قلابہ کو فرماتے ہوئے سنا:جنت میں ایک محل ہے ،جس میں صرف ماہِ رجب میں
روزہ رکھنے والے داخل ہوں گے۔(شعب الایمان)
یہ تمام روایات ’ما ثبت بالسنۃ‘میں بھی مذکور ہیں۔شیخ عبد الحق محدِّث
دہلویؒ نے اس مضمون کی اور بھی روایات ذکر کی ہیں،جو ہم نے طوالت کے خوف سے
چھوڑ دیں۔انھیں ذکر کرنے کے بعد موصوف ؒ فرماتے ہیں؛ مندرجہ بالا تمام
روایات جن کتب میں مذکور ہیں،وہ اس وقت سب کی سب میرے سامنے ہیں اور ان
تمام روایات کی بابت ان کتبِ احادیث میں تحریر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی
صحیح نہیں،بلکہ ہر ایک ضعیف ہے ۔نیز یہ سب کی سب من گھڑت ہیں۔(ما ثبت
بالسنۃ)
رجب میں عمرہ
ایک مسئلہ خصوصیت سے رجب کے مہینے میں عمرہ کرنے کا ہے ۔ حضرت ابن عمر ؓسے
مروی ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے رجب میں عمرہ ادا فرمایا اور حضرت عمرؓ،ان کے
صاحب زادے ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں ثابت ہے کہ یہ حضرات رجب کے
مہینے میں عمرہ کیا کرتے تھے ،اس لیے رجب کے مہینے میں عمرہ کرنا مستحب
ہوگا۔ علامہ ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ سلفِ صالحین ایسا کرتے تھے
۔(مسنداحمد)
رجب کی قربانی
اسلام کے ابتدائی زمانے میں رجب کے مہینے میں خصوصیت سے جانور کی قربانی کی
جاتی تھی،اسے ’رجبی‘کہتے تھے ،لیکن جمہور کے قول کے مطابق جوچیزیں اسلام
میں بہت شروع زمانے میں منسوخ کر دی گئیں،من جملہ ان کے رجبی بھی ہے
۔(ماثبت بالسنۃ)بعض لوگ سنن ابو داود وغیرہ میں وارد ایک روایت کی بنا پر
اسے مستحب سمجھتے ہیں کہ رجب کے ابتدائی دس دنوں میں یا رجب کی دسویں تاریخ
میں خصوصیت سے جانور ذبح کرنا مستحب ہے ، جب کہ خود حضرت امام ابوداودؒ نے
اس روایت کو منسوخ قرار دیا ہے ،یعنی اب یہ حکم باقی نہیں
رہا۔(ابوداود)بخاری اور مسلم میں وارد روایات کے مطابق بھی عتیرۃ اور رجبی
کا حکم منسوخ ہو چکا ہے ،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓسے مروی ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: (اب اسلام میں)عتیرۃ کوئی چیز نہیں۔(بخاری)
ہزاری روزہ
۲۷؍ رجب میں روزے کے متعلق بھی کوئی صحیح حدیث کتبِ حدیث میں مذکور نہیں
اور نہ ہی فقہا نے ان ایام میں روزہ رکھنے کی فضیلت بیان کی ہے ۔ عوام میں
۲۷؍ رجب کے متعلق بہت بڑی فضیلت مشہور ہے ، مگر وہ غلط ہے ۔ اس فضیلت کا
اعتقاد بھی غلط ہے ، اس نیت سے روزہ رکھنا بھی غلط ہے ۔(فتاویٰ محمودیہ
جدید) حق بات یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کے بارے میں جو روایات آئی ہیں وہ
موضوع اور ضعیف ہیں،صحیح اور قابلِ اعتماد نہیں۔لہٰذا ! ۲۷؍رجب کو عاشورا
کی طرح مسنون سمجھ کر روزہ رکھنا کہ ہزار روزوں کا ثواب ملے گا۔۔۔ ممنوع ہے
۔(فتاویٰ رحیمیہ جدید)ایک روایت میں ہے ، حضرت نبی کریم ﷺ نے رجب میں روزہ
رکھنے سے منع فرمایا ہے۔(ابن ماجہ)امام طبرانیؒ اور ابن ابی شیبہؒ نے خرشہ
بن حُر کی روایت سے لکھا ہے کہ میں نے حضرت عمر فاروقؓکو دیکھا کہ وہ رجبی
روزہ داروں کو پکڑ کر کھانا کھلاتے اور فرماتے ؛یہ رجبی کیا چیز ہے ؟ غور
سے سنو، رجب وہ مہینہ ہے جسے ایامِ جاہلیت میں (بہت زیادہ) معظم مانا جاتا
تھا، لیکن اسلام نے اس کی خود ساختہ عظمت کو ترک کردیا ہے ۔(طبرانی اوسط)
مکہ مکرّمہ کا فتویٰ
شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں؛رجب یا کسی دوسرے مہینے میں شبِ معراج کی تعیین کے
متعلق صحیح احادیث سے کچھ ثابت نہیں اور اس کی تعیین کے متعلق جو روایات
وارد ہوئی ہیں وہ محدثین کی تحقیق کے مطابق رسول اﷲ ﷺ سے ثابت نہیں اور اس
میں اﷲ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ پوشیدہ ہے ۔اگر بالفرض اس رات کی تعیین ثابت
ہو بھی جائے تو بھی مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ ماہِ رجب کومخصوص
عبادات کے لیے خاص کر لیں،کیوں کہ حضرت نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓنے ایسا
کوئی اہتمام نہیں کیااور اگر شریعت میں ایسا کوئی مخصوص عمل مشروع ہوتا تو
حضرت نبی کریم ﷺ اپنے قول وفعل سے امت کے سامنے اس کی وضاحت ضروو رفرماتے
۔(مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعۃ)نیز سعودی کی مستقل فتویٰ کمیٹی نے ایک سوال
کے جواب میں فتویٰ صادر فرمایاہے کہ رجب کے پورے مہینے کے روزے رکھنا رسول
اﷲ ﷺ سے ثابت نہیں،اس لیے جو بھی ایسا کرے گا وہ رسو ل اﷲ ﷺ کی سنت او رآپ
ﷺکے طریقے کی مخالفت کرے گااور ایسا کرنا بدعت ہوگا۔(فتاویٰ الجنۃ الدائمۃ)
شعبان کا چاند دیکھنا
رجب کی ۲۹؍تاریخ کو شعبان کا چاند دیکھنا مستحب ہے ،تاکہ شعبان کا حساب
ٹھیک رہے اورماہِ شعبان کی۲۹؍ تاریخ کو غروبِ آفتاب کے وقت رمضان المبارک
کا چاند دیکھنا یعنی دیکھنے کی کوشش کرنا اور مطلع پر تلاش کرنا ضروری ہے ،
تاکہ شعبان کی ۲۹؍ تاریخ کو رمضان المبارک کا چاند نظر آجائے تو اگلے دن سے
رمضان کا روزہ رکھا جاسکے ۔(نسائی ،ہندیہ)
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق و ڈیریکٹر ہیں)
|