لال ٹوپی والا بندر

 میں عورت ہوں مجھے مرد کی برابری کے حقوق چاہییں!ان اخلاقی ضابطوں کی دھجیاں اُڑانے والی آنٹیوں کو یہ بات کرنے سے پہلے اس طرف نظر گھمانی چاہیے کہ جب یہ بس میں سوار ہوتی ہیں تو مرد انہیں کھڑا دیکھ کر اپنی سیٹ چھوڑ دیتے ہیں، جب بینک،ڈاکخانے یا کسی بھی دفتر میں جائیں تو مرد انہیں بغیر لائن کے اپنا کام کروانے کی اجازت دے دیتے ہیں، لیکن اب مجھے برابری کے حقوق دینے ہیں، میں ان کے حقوق کا قائل ہوں، خواتین کو میں کم تر نہیں سمجھتا!آئیں شوق سے برابری کے حقوق لیں مردوں کے برابر ہر کام کریں۔

مجھے ایک بات کا یقین نہیں آتا کہ کیا کوئی مہذب عورت یہ جملے کہہ سکتی ہے کہ میرا جسم میری مرضی، اپنا بستر خود گرم کرو، نظر تمہاری گندی میں کیوں حجاب پہنوں،محترمہ ایک منٹ رکو یہ جو آپ آدھے کپڑے ہمیں دکھا رہی ہیں وہ کیا ہے؟آپ کی بات ہی مان لیتے ہیں کہ ہماری نظر ہی گندی ہے ہم آپ کو دیکھتے ہیں، گھورتے ہیں، ٹھیک ہے پھر ہم مرد بھی نیم برہنہ کیا برہنہ ہی سڑکوں، گلی محلوں، سکولوں، کالجوں، دفاتر، حتیٰ کہ ہر جگہگھومتیپھریں؟

مغربی عورتوں نے اپنے کپڑے اتار پھینکے تو وہاں کیا ہوا عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی کم سمجھا جانے لگا، کتے کی طرح گلے میں پٹہ ڈال کر اپنی مرضی سے ان کے جسموں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا گیا، وہاں ڈی این اے کے بغیر کیا کوئی کسی پر یقین کرسکتا ہے کہ اس کا باپ میں ہی ہوں، یہ روشن خیال آنٹیاں جائیں دیکھیں وہاں ایک ایک بچے کے خدا جانے کتنے کتنے باپ ملیں گے۔

ٹاپ سانتے نامی برطانوی میگزین کی رپورٹ کے مطابق 94فیصد برطانوی خواتین اس سپر وویمن رول ماڈل سے نجات چاہتی ہے ان کا کہنا ہے اب وقت آگیا ہے کہ سپر وویمن واپس اپنے گھر کا رخ کرے یعنی اپنی اصل ذمہ داریوں کو نبھائے، یہ تمام مظالم ان ممالک میں پیش آرہے ہیں جو عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کی بات کرتے ہیں اور دنیا بھر میں آزادی نسواں کے سب سے بڑے محافظ اور مراکز شمار ہوتے ہیں، آج پاکستانی معاشرے کو Rapistکہا جارہا ہے۔Rapistپاکستانی معاشرہ نہیں بلکہ وہ معاشرہ ہے جہاں مرد کو مرد کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت ہے وہاں مرد عورتوں کی تحقیر کرکے جانوروں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جانوروں کو سمجھنا عورتوں کی نسبت بہت آسان ہے۔

یہ چند گنتی کی نفسیاتی مریض مغرب زدہ خواتین جس آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں مغرب اس آزادی نسواں کی تحریک کو اپنی تاریخی غلطی قرار دے چکا ہے۔ مغرب کے نزدیک عورت کی آزادی کی تحریک نے خاندانی نظام کو بری طرح متاثر کیا۔

یہ جو آزادی مانگ رہی ہیں یہ پہلے ہی آزادی کے ہاتھوں ستائی ہوئی ہیں اور چاہتی یہ ہیں کہ اکیلی اس دلدل میں ہم ہی کیوں پھنسیں؟گھروں میں عزت و وقار سے بیٹھی مومنات کو باہر نکال کر اپنی جیسی شمع محفل بنائیں، انہیں چوکوں، چوراہوں اور شاہراہوں پر رسوا کروائیں۔ان مورتوں کے پیچھے وہ ماسٹر مائنڈ وحشی درندے ہیں جو تمہیں برابری اور آزادی کا فریب دے کر تمہاری آزادی کے پس پردہ تمہارے جسم کے ساتھ آزادی سے کھیلنا چاہتے ہیں۔

یہ جو اسلام نے مومنات کو مقام دیا ہے دراصل یہ اس مقام سے گرا کے ذلت، ناقدری اور دھتکار آپ کا مقدر بنانا چاہتی ہیں۔دنیا میں جہاں کہیں بھی عورت کو عزت یا حفاظت ملے گی تو وہ مکمل کپڑوں اور باپردہ ہونے کی وجہ سے۔جو عزت اور احترام تم کو مرد دے رہا ہے اس کی قدر کرو اور اپنی عزت،احترام اور برتری کو برقرار رکھو۔

اب آتے ہیں گزشتہ دنوں ہونے والے تلخ واقعہ کی طرف جس نے ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں تخلیق کار خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کو خواتین کے حوالے سے ہونے والے آزادی مارچ کے بارے گفتگو کے لیے بلایا گیا، پروگرام میں ماروی سرمد کا دماغ سٹک گیا اور وہ دوسرے مہمان خلیل الرحمان کے ساتھ لچر گفتگو فرمانے لگیں اور ان کو برے بھلا کہنے کہ ساتھ معاشرے میں فحاشی وعریانی کے فروغ کے لیے میرا جسم میری مرضی کہنا شروع کیا اس کہ بعد میں یہ سمجھتا ہوں خلیل الرحمان قمر نے ماروی سرمد یا کسی عورت کو گالی نہیں دی بلکہ اس نظریے کے منہ پر تمانچہ مارا ہے جو ہماری قوم، نسل، تشخص،ثقافت اور مذہب کی توہین کر رہا ہے جہاں تک ان کے سخت رویے کا معاملہ ہے تو سنیں یہ چند لفافی صرف اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں دوران گفتگو قصداً ایسا ماحول بناتے ہیں مہمان کو اس طرح کا رویہ اپنانے پر مجبور کرتے ہیں،ایک نازیبا بات کو بار بار کرکے طیش دلایا جاتا ہے ان کی جگہ کوئی بھی غیرت مند پاکستانی ہوتا تو اس نے یہ ہی کرنا تھا۔
اب آئیں ماروی سرمد کی طرف یہ ایک چرب زبانی کرنے والی احمق اور نالائق صنف نازک ہے بلکہ صنف نازک کے نام پر ایک دھبہ ہے۔جتنے ٹی وی پروگراموں میں یہ گئی ہیں ان پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح دیکھنے کو نظر آئے گی کہ نام نہاد خواتین کے حقوق کی ٹھیکیدار نے ہر پروگرام میں کسی نہ کسی کے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔

پاکستان کی معتبر اور نامور شخصیات کے بارے ان کی زبان غلیظ سے نکلنے والے چند الفاظ ملاحظہ فرمائیں زید حامد کو لال ٹوپی والا بندر کہا، مفتی نعیم کے ساتھ بدتمیزی کی، ایک پروگرام میں اپنے مدمقابل کو ماروی سرمد نے ”ملوٹہ“کہا حتی کہ ابھی چند روز قبل علی محمد خان کو بھی ایک پروگرام میں کہا کہ آپ کے پاس جواب نہیں ہے تو بتائیں یہ ”آئیں، بائیں، شائیں“کیوں کر رہے ہیں،وہ ایک ہی طوطے کی”ٹائیں ٹائیں ٹائیں“شروع کردیتے ہیں، ان کو عادت ہے ایسے ہی ”ٹر ٹر ٹر“ کرنے کی، فوراً بوٹ پالش شروع کر دیتے ہیں یہ چلتا پھرتا چیری بلوسم کا اشتہار ہیں۔اتنی لچر زبان استعمال کرنے کے باوجود بھی میڈیا نے اس پر کبھی پابندی کی بات نہیں کی دوسری جانب خلیل الرحمان قمر پر پابندی اور معافی کے لیے کمپین شروع کردی ہے۔

مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ یہ جو بازاری عورتوں اور نام نہاد نطفہ بے تحقیق سکالرز کو ٹی وی پر بلا کر فیصلہ کروایا گیا کہ اس مصنف نے صحیح کیا یا غلط شرم آنی چاہیے ان کو، اتنا تو جو چھترول کی حق داری تھی اس کی خاطر تواضع نہ ہوئی جتنا ان غلیظ مفکروں اور ناچنے گانے والے طبقے نے ان کی شہرت کو برداشت نہ کرتے ہوئے ان کو فرعون اور پتہ نہیں کیا کیا بنا کر ماروی سرمد کو مظلوم بنا کر پیش کیا، مجھے کوئی بتائے کہ اب ان پر کون پابندی لگائے گا، ہے کوئی جو اس کا حوصلہ افزا جواب دے سکے۔

انڈیا میں مسلمانوں کی جس طرح نسل کشی ہو رہی ہے،روہنگیا میں جس طرح عورتوں کو کاٹا گیا اور جلایاگیا،زندہ عورتوں کے کباب کرکے کھائے گئے تب یہ ہیومن رائٹس کمیشن، این جی اوز اور لبرل آنٹیاں کیوں خاموش رہیں۔ ایک لفظ تک نہیں بولا۔ماروی سرمد کی توہین پر سب مافیا ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔

میری بہنو! عورتیں ہی قوموں کا سرمایہ ہوتی ہیں، یہ عورتیں ہی ہیں جنہوں نے اقوام کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کیا، ایک عورت ایک خاندان نہیں بلکہ ایک نسل کی تربیت کرتی ہے، ہمارا میڈیا اور یہ ڈرامے ہماری نوجوان نسل کو جس اخلاق باختگی اور بے حیائی کی طرف لے کر جا رہا ہے اس کی راہ میں آپ ہی رکاوٹ بن سکتی ہیں، سیسہ پلائی دیوار بن سکتی ہیں، اپنے گھروں کو اسلامی ماحول دے سکتی ہیں، آج بھی اگراس کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کھڑی ہوجاؤ تو کوئی ہماری صفوں میں گھس کر ہمارے خاندانوں کو خراب نہیں کرسکتا۔ اب ہمیں اپنے محاذ کا خود دفاع کرنا ہے۔

 

Mudassar Subhani
About the Author: Mudassar Subhani Read More Articles by Mudassar Subhani: 16 Articles with 14071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.