میرےخدامجھے اتنا تو معتبر کردے میں جس مکاں میں رہتا ہوں اسکو گھر کردے

معاشرتی نظام

میرےخدامجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکاں میں رہتا ہوں اسکو گھر کردے
یہ کالج کے زمانے کی بات ہے ہمارے ایک استاد تھے وہ بہت اعلی قابلیت کے حامل تھے اور ساتھ ہی مقالے لکھا کرتے تھے اپنے وقت کے ریسرچ اسکالر تھے وہ اکثر یورپی ممالک کے دورے بھی کیا کرتے تھے وہ ہمیں اردو پڑھانے تھے وہ اپنی قابلیت کے بہت سے واقعات اپنے لیکچرر میں سنایا کرتے تھے انھوں نے ہمیں بتایا کہ امریکہ میں یہودی پاکستان کے خاندانی نظام پر ریسرچ کر رہے تھےان کے خیال میں پاکستانی بچے جو دوسرے ممالک میں رہتے ہیں ان کا معیار تعلیم وھاں رہنے والے بچوں سے بہت زیادہ بہتر اور بلند ہے۔ اور وہ ہمیشہ مثبت سرگرمیوں میں ہی شامل ہوتے ہیں ایسا کیوں ہے انھوں نے یہ ثابت کیا کہ یہاں کی خواتین گھروں میں رہتی ہیں اور اپنے بچوں پر بھرپور توجہ دیتی ہیں یہ اکثر ملک سے باہر رہنے والے گھرانوں کے پیچھے پاکستان میں ان کے مضبوط گھرانے ہیں جو مشکلات میں ان کو سپورٹ کرتے ہیں یہ وجہ ہے کہ بچے اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیتے ہیں بہت تجربات کے بعد ان کی اولین کوشش تھی یا پھر ان کا سو سالہ منصوبہ تھا کہ پاکستان کی خواتین کو گھروں کے حصار سے باہر نکالا جائے تاکہ بچوں کی قابلیت کے معیار کو توڑا جا سکے یہ اس وقت کی بات ہے کہ ہم تعلیم حاصل کر رہے تھے آج ہمارے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسوقت ہمیں اپنے استاد کی بات سچ معلوم ہوتی ہے ۔یقینا مغرب نے اس کے پیچھے کتنی منصوبہ سازی کی ھوگی پہلے انھوں نے مشترکہ خاندانی نظام کو متاثر کیا اس کے پیچھے کیا کچھ نہیں منصوبہ عمل میں لائے جو اس نظام کو تورنے کے لیے ضروری ہو اس کے لیے انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا ہمارے میڈیا کو کنٹرول کیا ہوگا ۔ہماری حکومت کو کنٹرول کیا معاشی نظام پر ضرب لگائی گئی تاکہ خواتین گھر سے نکلیں مغرب اپنے خیالات،افکار پھلانے میں۔ کامیاب ہو گئے اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر گیا اور گھر اکائی پر مشتمل ہوگے پھر اکائی کو توڑنا کیا مشکل شیطان حب یہاں بھی کامیاب ہوگیا۔جس کے نتیجے میں گھر۔گھرسے مکان میں تبدیل ہوگے ۔

منصوبہ سازی سب کے سامنے آچکی ہے کہ مغرب کس طرح میڈیا پر قبضہ کر کے مادر۔ پدر آزاد ڈرامے دکھائے اور نوجوانوں کو آزادی کے نام پر بے راہ روی کی جانب بڑھا گیا اور بےدین افکار کو ٹھونسنے کی کوشش کی گئی اب یہ سب باتیں سب کے سامنے آچکی ہیں اور ہم اسے بھگت بھی رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے خاندان بکھرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور تعلیمی معیار گر چکا ہے جوان نسل کنٹرول میں نہیں پاکستانی گھرانے اب مکان میں تبدیل ہو چکے ہیں اس مکان کے افراد بکھرے ہوئے ہیں باپ الگ معاشی فکروں میں مصروف اور ماں الگ اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے میں پریشان بچے الگ موبائل میں ڈوبے ۔نظر آتے ہیں۔اور ان کے اندر احساس ذمداری کا فقدان نظر آتا ہے انھوں سب سے پہلے یہاں کی عورتوں کو متاثر کیا اور اسے گھر سے باہر نکالا جس کے نتیجے میں گھر میں خالی بچے جو کہ ماں کی تربیت سے محروم ہو گئے مغرب کے منصوبہ ساز کامیاب ہو گئے لیکن اب ہمیں سنبھلنا ہوگا مکان کو گھر میں تبدیل کرنے کے لئے اس کے اسباب پر غور فکر کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے اس واپسی میں عورت کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے مرد اور عورت کو مل کر ہی منصوبہ بندی کر نی پڑےگی سب سے پہلے عورت کو معتبر کریں اسے عزت و تکریم دیں اور تحفظ کا احساس اور ہر معاملے میں عورت کا پورا ساتھ دیں۔اور ساتھ ہی عورت کی تعلیم پر توجہ دی جائے تاکہ عورت تعلیم حاصل کر کے اپنی نسلوں کو پروان چڑھانے کے لئے نا کے جاب کے لیے ،ضروت کے تحت جاب کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن جب تک وہ باہر رہے اسکےگھر میں بزرگ رہیں تاکہ بچے جو کہ ہمارا سرمایہ ہیں اپنے بزرگوں کے آگے پروان چڑھیں گھر کے بزرگ بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں وہ کوئی آیا نہیں کرسکتی اس کے علاوہ گھر کے تمام افراد اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی بسر کر یں اور بچوں کے لئے بھی بہترین تربیت کا انتظام کریں۔اج کے حالات واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اسلام سے دوری گھر تورنے کا سبب ہے اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں یہی چیز خاندان کے مستحکم ہو نے کا باعث بنے گی جب ہی مکان گھر میں تبدیل ہو سکتے ہیں میڈیا کو اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔مخصوص اوقات میں بچوں کے تربیتی پروگرامات دکھائے جائیں اور خواتین کے لیے بھی ایسے پروگرام بنائے جائیں س جس سے وہ اپنی نسل نو کی تربیت کر کے گھروں کی بنیاد مضبوط کریں

Fauzia Sultana
About the Author: Fauzia Sultana Read More Articles by Fauzia Sultana: 16 Articles with 10416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.