گزشتہ کچھ دنوں سے عورت مارچ کا موضوع کافی سرگرم رہا ہے.
کیا پاکستان کے سب مسئلے حل ہو گئے ہیں؟ جواب ملے گا نہیں. تو پھر ایسا
موضوع جب ساری دنیا کرونا جیسے متعدی مرض سے متاثر ہوئی پڑی ہے کیوں آج
زبان ذد عام ہوا پڑا ہے؟ اگر ہم اس مارچ کی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا
ہے کہ عورت مارچ کا باضابطہ آغاز مغربی ممالک اور امریکی ریاستوں سے ہوا
اور پھر می ٹو مہم اور باقی مہم کی طرح اس مہم نے بھی پاکستان کا رخ کیا.
عورت مارچ دراصل ایک تحریک ہے جس کا پاکستان میں باضابطہ آغاز 8 مارچ 2018
کو خواتین کے عالمی دن منانے سے مشروط ہے. اس دن پاکستان کے مختلف شہروں
بشمول لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں خواتین اور چند مرد حضرات مل کے ان
مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں. اس میں متعدد تنظیمیں جیسے کہ ڈبلیو اے ایف اور
ڈبلیو ڈی ایف کے نمائندے بھی شرکت کرتے ہیں. نیز اس مارچ کو متعدد حلقوں کی
جانب سے حمایت بھی حاصل ہے اور فنکار برادری کے اکثر نام اس میں پیش پیش
نظر آتے ہیں. یہ سب لوگ اپنے ہاتھوں میں کچھ پوسٹرز اُٹھائے ہوتے ہیں جس
میں درج زیل نعروں کی گونج ہوتی ہے جو کہ کچھ یوں ہوتے ہیں میرا جسم میری
مرضی، اپنا کھانا خود گرم کرو اور کھانا میں گرم کردوں گی بستر تم گرم
کرلینا اس جیسے چند مزید نعرے اس تحریک کی آواز ہوتے ہیں. لیکن آجکل یہ
نعرے متنازع رخ اختیار کر گئے ہیں اور ان تمام نعروں کو فحش اور لادینیت سے
تشبیہ دیا جارہا ہے. اگر ہم پاکستانی اسلاف اور ادب کے تناظر میں ان سب
نعروں کا معائنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ واقعی یہ نعرے ہمارے معاشرے کے لیے
اچھا پیغام نہیں ہوسکتے. ان سب نعروں کے پس پردہ جو پیغام ہے اس کو بہترین
انداز میں اچھے الفاظ میں پیش کیا جاسکتا ہے جیسے کہ ہم ان سب نعروں کو اگر
یوں کہیں میری شادی میری مرضی، میرا جہیز میری مرضی، میری جائیداد میرا حق،
میری زندگی میری مرضی اور مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے تو زیادہ موثر انداز میں
تحریک کی آواز کو عام لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں. اس موضوع سے قطع نظر ہوکر
دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند اور کچھ کرنے والی سوچ کو ان سب
تحریکوں اور نعروں سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ تو اپنی دھن میں مصروف ہیں
اور کامیابی کی طرف گامزن ہیں جن میں ہم چند درخشاں مثالوں کا حوالہ دیتے
ہوئے فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو، تانیہ ادریس ، عائشہ فاروق، ماریہ عمر،
ثانیہ نشتر، جہان آرا جیسی عورتیں ہمیں صف اول پر نظر آئیں گی جنھوں نے کسی
بھی کمزوری کو اپنے اوپر اثر انداز نہیں ہونے دیا اور ان تمام باتوں سے دور
ہوکر انھوں نے یہ سب کر دکھایا. جہاں میرا یہ نقطہ نظر ان سب ذومعنی نعروں
(میرا جسم میری مرضی) کو کمزور کرتا ہے. وہاں اگر ہم اسلام کا حوالہ دیں تو
معلوم ہوگا کہ یہ سب نعرے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ اسلام کے آغاز سے قبل تو
عورت کی انسانیت سے انکار تھا اور عورت کو باعث ذلت سمجھا جاتا تھا اور اس
کو محکوم کی طرح زندگی بسر کرنا پڑ رہی تھی پر دین اسلام کے قیام سے عورت
کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور یہی عورت کے قدموں میں جنت کے حصول
کو رکھ دیا گیا اور یہی عورت کو اسلام نے آزادانہ طور پر تمام حقوق فراہم
کیے جس سے عورت پر اسلام سے قبل ہونے والے ظلم کا تدارک ہوا. لہٰذا معلوم
ہوتا ہے یہ سب تحریک کے سربراہ لوگ دینی تعلیمات سے ناواقف ہیں یا پھر اس
موضوع کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے. کیونکہ اس سب کے
باوجود آج بھی جتنا سخت مقابلہ عورت کا عورت سے ہے وہ ہم اپنی نظر سے
دیکھتے ہیں جب ایک عورت اپنے ساتھ دوسری عورتوں پر تشدد ہوتے دیکھتی ہے
چاہے وہ ساس کی صورت میں ہو یا بہو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک عورت ہی
دوسری عورت کے گھر کی تباہی کی ذمہ دار ہوتی ہے. اگر ایک عورت دوسری عورت
کی شراکت کو برداشت کرلے تو یہ تشدد جو عورت پر ہوتا ہے کافی حد تک کم ہو
سکتا ہے. لہٰذا ان سب عورتوں کو اپنا حقوق حاصل کرنے کے لئے مرد سے پہلے
عورت کا سامنا درپیش ہوگا . اور جہاں تک اس سارے معاملے میں مرد کو دیکھیں
تو جو مرد بھی عورتوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ان کو معاشرے کے تمام
دوسرے مردوں سے لعن طعن اور غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے . اس سب بحث کا حاصل
یہ ہوگا کہ بطور معاشرہ ہم سب کو اپنی درستگی کے عمل سے گزرنا ہوگا اور
اپنے اندر بنیادی طور پر سب سے ضروری برداشت کا مادہ پیدا کرنا پڑے گا تاکہ
ہم ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھ سکیں. مزید برآں ہمیں اپنے اندر کی تمام
کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا پڑے گا جو کہ معاشرے میں انتشار کے ذمہ دار
ہیں. حکومت کو بھی اس سب معاملے کو حساسیت سے دیکھنا ہوگا تاکہ کسی کے ساتھ
ظلم و زیادتی نہ ہونے پائے. اب اگر ہائی کورٹ نے چند شرائط کے ساتھ اس مارچ
کی اجازت دی ہے تو دیکھنا پڑے گا کہ ان شرائط سے انحراف نہ ہو اور تمام
حدود کے اندر رہتے ہوئے یہ مارچ ہوجائے. |