میری نسوار میری مرضی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
نسوار واحد چیز ہے جسے ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں کسی زمانے میں اس کی ڈبیاں ہوتی تھی اب تو پلاسٹک کی پڑیوں میں دستیاب ہے جو خیبرپختونخوا کے ہر پانچویں شخص کی جیب میں لازمی پڑی گی اس کا شوق کرنے والوں کاکہنا ہے کہ وہ تو سر ہی نہیں جس میں نسوار کا نشہ نہ ہو. .. اگر اسی مقولے پر نظر ڈالی جائے تو ہمارا اپنا سر بھی نسواریوں کے سٹینڈرڈ پر پورا نہیں اترتا .. بلکہ بعض تو ہمیں شرمندہ کرنے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ تم پٹ.. آن ہی نہیں ہو. شکر ہے میں ایسا والا پٹ... آن نہیں..ہمارے ہاں بازاروں میں ایک آواز بڑی گونجتی ہے کہ نسوار دا چارسد ے ، نسوار دا نوخار ، ویسے ہر کوئی اپنے علاقے کی نسوار کو بہترین سمجھتا ہے ہمارے ایک کیمرہ مین ساتھی ہر روز ایک مخصوص دکان سے نسوا ر خریدتے ہیں مجال ہے کہ کبھی وہ اس میں ناغہ کرے ہاں کھانے میں وہ ناغہ کرسکتے ہیں لیکن نسوار میں ناغہ.. اللہ معاف کرے..
|
|
|
نسوار وہ چیز ہے جسے ہمارے ہاں ہر پانچوا ں شخص ہونٹوں اور دانتوں کے بیچ میں ضرور رکھتا ہے اس کا نشہ کیسا ہے اس کا تو مجھے اندازہ نہیں البتہ اس کی بدبو اتنی ہوتی ہے کہ اگر کوئی بہت زیادہ شریف آدمی اسے سونگھ لے تو بے ہوش لازمی ہوگا اور اگر میری طرح کوئی شریف ہو تو اسے لازمی الٹی یعنی قے آئیگی.. اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میں اتنا شریف بھی نہیں ہوں .
آج نسوار پر لکھنے کو اس لئے دل کررہا ہے کہ اس بدبودار چیز نے پختونوں کو کہیں کا نہ چھوڑا جہاں پختون ہوگا وہاں نسوار ضرور ہوگی بلکہ اب تو یہ پشتونوں کا ٹریڈ مارک بن گئی ہے،،،پتہ نہیں اس کا سرور کیسا ہے لیکن یہ بات کنفرم ہے کہ اچھے بھلے لوگ بھی اس کم بخت کا شکار ہیں اور اب تو ہم نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو ٹشو میں نسوار کی چونڈی بنا کر ڈالتے ہیں ..اور پھر راستے میں کہیں گرا دیتے ہیں ،کبھی اگر کوئی سڑک پر پڑا ہوا دیکھ لیں تو آپ حیران ہونگے کہ ٹشو پیپر ایسا گول کیسے ہوگیا ،وہ تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جسے آپ ٹشو پیپر سمجھ کر اٹھاتے ہیں اس میں نسوار کی چونڈی ہوتی ہے.
ویسے نسوار وہ چیز ہے جسے استعمال کرنے والے گرانے کے بعد خود اٹھانے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ یہ گندگی ہے .یہ واحد گندگی ہے جو آپ کو خیبرپختونخواکے مختلف علاقوں میں ہر جگہ دیکھنے کو ملے گی . ہوٹل کے ہال سے لیکر واش روم ، گھر میں کمروں سے لیکرشادی ہال اور تو اور اب تو پشاور ہائیکورٹ میں پڑے گملوں میں بھی یہ ملتی ہے، اور اگر اپ اس پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ اس میں مختلف رنگوں اور سائز کی نسوار کی چونڈیاں ملیں گی .جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ میں آنیوالے افراد کی بڑی تعداد مختلف علاقوں سے ہے جو اپنے علاقوں کی نسوار اپنے ساتھ لاتے ہیں اور اطمینان سے کیسوں کی سماعت کے موقع پر بیٹھے ہوتے ہیں..
ویسے ان گناہ گار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ موکلین کے ساتھ ساتھ اب تو وکلاء بھی کھڑے کھڑے منہ سے نسوار کی چونڈی نکال کر گملوں میں ڈال دیتے ہیں ۔شائد یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ پشاور ہائیکورٹ کی بلڈنگ میں پڑے پھولوں کے ان گملوں کو یوریا کی ضرورت ہے اور یہ لوگ اسے یوریا سمجھ کر ڈالتے ہونگے لیکن مجال ہے کہ گذشتہ دو سال سے ان پودوں پر کوئی اثرہوا ہے. لگتا ہے کہ جس طرح ہمارے حکمران بے حس ہیں یعنی ان پر عوام کی فریاد کا کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح پشاور ہائیکورٹ کی بلڈنگ میں پودوں میں پڑی نسوار کی ان چونڈیوں کا ان پودوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا. ایک بات سمجھنے کی ہے جو ہم ابھی تک نہیں سمجھے کہ اگر پودے بول سکتے تو خدا اور رسول کا واسطہ دیکر لوگوں کو کہتے کہ نسوار کی چونڈی کیا چونڈیا ں بنا کر کھا لیا کرو مگر ہمیں معاف کرو.. اور گملوں کے پیندوں کو خالی کرو.مگر شکر ہے کہ پودے بول نہیں سکتے نہ ہی عدالت میں رٹ کرسکتے ہیں .. ورنہ ہر تیسری رٹ پودوں کی ہوتی کہ انسانوں نے نسوار کی چونڈیا ں ڈال ڈال کر ہمیں خراب کردیا ہے.
نسوار واحد چیز ہے جسے ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں کسی زمانے میں اس کی ڈبیاں ہوتی تھی اب تو پلاسٹک کی پڑیوں میں دستیاب ہے جو خیبرپختونخوا کے ہر پانچویں شخص کی جیب میں لازمی پڑی گی اس کا شوق کرنے والوں کاکہنا ہے کہ وہ تو سر ہی نہیں جس میں نسوار کا نشہ نہ ہو. .. اگر اسی مقولے پر نظر ڈالی جائے تو ہمارا اپنا سر بھی نسواریوں کے سٹینڈرڈ پر پورا نہیں اترتا .. بلکہ بعض تو ہمیں شرمندہ کرنے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ تم پٹ.. آن ہی نہیں ہو. شکر ہے میں ایسا والا پٹ... آن نہیں..ہمارے ہاں بازاروں میں ایک آواز بڑی گونجتی ہے کہ نسوار دا چارسد ے ، نسوار دا نوخار ، ویسے ہر کوئی اپنے علاقے کی نسوار کو بہترین سمجھتا ہے ہمارے ایک کیمرہ مین ساتھی ہر روز ایک مخصوص دکان سے نسوا ر خریدتے ہیں مجال ہے کہ کبھی وہ اس میں ناغہ کرے ہاں کھانے میں وہ ناغہ کرسکتے ہیں لیکن نسوار میں ناغہ.. اللہ معاف کرے..
ایک اور ساتھی جو کسی زمانے میں سگریٹ نوشی کرتے تھے انہوں نے ایک دن بڑے فخر سے اعلان کیا کہ میں نے سگریٹ نوشی چھوڑ دی مجھے بہت خوشی ہوئی کہ چلو ایک گند سے جان چھوٹ گئی بعد میں اس نے بتایا کہ سگریٹ نوشی تو چھوڑ دی لیکن اب نسوار کی چونڈی ڈال کر سرور حاصل کرتا ہوں اور بقول اس کے سگریٹ کے مقابلے میں یہ نسوار لوگوں کو نظر نہیں آتا اس لئے میں نے یہ شروع کی اور اس کی یہ منطق سن کر ہم اپنا سر پکڑ کر رہ گئے..
ویسے نسوار کی تاریخ ویکی پیڈیا پر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1493 میں شروع ہوئی اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی اس کے شوقین تو ہرجگہ ہیںلیکن خیبر پختونخوا میں اتنے زیادہ ہیں کہالااماں و الحفیظ ... ویسے ایک ہم بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہم نے بغیر نسوار منہ میں ڈالے لکھ دیا ہے اگر ہم نے نسوار منہ میں ڈالی ہوتی .. تو شائد کچھ زیادہ ہی... ہمارے ہاں بڑے بڑے نامور صحاف چونڈی ڈال کر صحافت کرتے ہیں..اور یہی چونڈی ان کانشہ بھی انہیں بھی اوپر لیکر جاتا ہے.. |