احتساب حقیقی اور با مقصد ہونا چاہیے

تحریر: مولانا عثمان الدین
ــ ملک میں گزشتہ کچھ سال سے احتساب کے نام پر جاری سلسلہ اب ماند پڑتا نظرآرہا ہے ، کرپشن کے بڑے بڑے الزامات میں قید افراد کی ضمانتوں اور رہائیوں کا سلسلہ جاری ہے، سابق حکمران جماعتوں کی قیادت بھی آزاد بلکہ ملک سے باہربیٹھی ہے ،موجودہ حکومت جو احتساب کے بیانیہ کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی وہ اسی کو عوام کے سامنے پیش کرتی آرہی ہے،اس کے لیے یہ صوررت حال باعث پریشانی ہے ، احتساب کے عنوان پر اس عرصہ میں جو کچھ ہواہے، وہ اس حوالہ سے بہت اہم ہے کہ اس نے ملک کی سیاست کا نقشہ مکمل طور تبدیل کردیا ہے، موجودہ سیاسی سیٹ اپ اور حکومت کا قیام اور اس کے نتیجہ میں ملک و قوم آج جس قسم کی سیاسی و معاشی صورت حال سے دوچار ہے ،اس میں بہت بڑا کردار اسیـ ـ’’احتساب‘‘ کا ہے ۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ملک سے کرپشن اور بد عنوانی کی روک تھام اور خاتمہ کے لیے احتساب کا عمل انتہائی ناگزیر ہے ،احتساب کا مستحکم اور مضبوط نظام ہی نہ صرف کرپشن کو روکتا ہے بلکہ ملک کی ترقی بھی اسی کے ساتھ ممکن ہے ، البتہ احتساب کا عمل جس قدر ضروری اور اہم ہے اسی قدر حساس بھی ہے اور احتسابی عمل میں حقیقی افادیت پیدا کرنے کے لیے اس حساسیت کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے ،بصورت دیگر احتساب کا عمل اپنی حقیقی افادیت کھودیتا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک احتساب کے عمل میں اس حساسیت کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتارہا ہے جس کی وجہ سے وہ ملک اور قوم کے حق میں حقیقی معنوں میں کوئی فائدہ پہنچانے میں ناکام رہا ہے،، حالیہ احتسابی عمل کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اس حوالہ سے ماضی کا ہی تسلسل نظر آتا ہے چنانچہ اس کا نتیجہ بھی ماضی کے نتائج سے مختلف نہیں ہے ۔

حقیقی احتساب کی حساسیت کا اولین تقاضا اس کا غیر متنازعہ ہونا ہے،احتساب کا عمل جس قدر غیر متنازعہ ہوتاہے اسی قدر اس کے بہتر نتائج سامنے آتے ہیں ،یہ ایک بنیادی اصول ہے جس کے تحت پھر مختلف چیزیں داخل ہیں۔ان میں ایک اہم بات احتساب کرنے والے کا سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا ہے ،ظاہر ہے کہ خود کو احتساب سے بالاتر سمجھنے یا اس سے فرار اختیار کرنے کا تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ،احتساب کرنے والے کے اس طرزعمل سے اس کے احتسابی عمل کووہ اخلاقی قوت ملتی ہے جو کسی اور چیز سے نہیں مل سکتی ہے۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ریاست مدینہ میں بھی احتساب کے عمل کا یہی بنیادی اصول تھااور اس سلسلہ میں عہد نبوی کے متعدد واقعات موجود ہیں۔ موجودہ حکومت جس کا بنیادی بیانیہ ہی احتساب اور ریاست مدینہ کے اصولوں پرملک چلانا ہے ،، وہ احتساب کے اس معیار پر پورا اترنے میں اب تک ناکام رہی ہے ،چنانچہ اس کا احتسابی عمل اخلاقی لحاظ سے پستی کا شکار ہے اور اس پر کوئی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔مثال کے طور پر حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد غیر قانونی مکانات اور دکانیں گرانے کا عمل شروع کر کے سب سے پہلے عوام کا احتساب شروع کیا لیکن وزیر اعظم صاحب کا اپنا بنی گالہ کا غیر قانونی گھر اس احتسابی عمل سے اب تک محفوظ ہے ۔حکومت مالی بدعنوانی اور کرپشن کے حوالہ سے مخالفین پر الزامات لگاتی ہے اور ہر وقت ا ن کے احتساب کی تگ و دوہ میں نظر آتی ہے لیکن خود فارن فنڈنگ کیس اور پشاورکے بی آر ٹی منصوبہ میں اب تک احتسابی عمل سے مسلسل راہ فرار اختیار کرتی آرہی ہے ۔حکومت کو اقتدار میں آئے ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے ،ظاہر ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے سارے ہی لوگ فرشتے تو نہیں ہیں ،متعدد حکومتی شخصیات پر موجودہ دورحکومت میں ہی انتہائی سنجیدہ نوعیت کے الزامات سامنے آچکے ہیں لیکن حکومت کے کسی ایک وزیر کا بھی اب تک حقیقی احتساب نہیں ہوا ہے ۔ احتسابی عمل کا منصفانہ بنیاد پرصاف و شفاف ، غیر جانبدارانہ ،بلا تفریق اور ہر قسم کے سیاسی اور انتقامی جذبات سے پاک ہونا بھی انتہائی ضروری ہے ،احتسابی عمل کا خاموشی کے ساتھ اور مختصر عرصہ میں مکمل کرنا بھی بہتر نتائج دینے میں مدد کرتا ہے ۔ ہمارا احتساب کا عمل ان صفات سے بھی خالی رہا ہے، غیر شفافیت ،جانبداری اور تفریق ،سیاسی اور انتقامی جذبات اس میں واضح طور پر موجود نظر آئے ہیں ۔ایک تاثر یہ بہت پختہ پایا جاتاہے کہ احتساب کے نام پر یہ سارا سلسلہ در اصل ایک سیاسی کھیل ہے، اسی طرح یہ سالوں پرمحیط ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے اور اس دوران خاموشی کے بجائے میڈیا پر ایک ہیجان ہوتا ہے ۔ظاہر بات ہے کہ جب احتساب کا عمل ان بنیادی صفات سے سے خالی ہواور اس کے بارے اس قسم کے منفی تاثرات موجود ہوں تو پھر وہ اپنے اخلاقی بنیاد سے محروم ہوجاتا ہے جس کے بعداس سے کسی بہترنتیجہ کا سامنے آنا ممکن ہی نہیں ہوتا ہے۔

احتساب سے بنیادی غرض اور مقصد بد عنوانی اور کرپشن کے مرتکب افراد کو ٹھوس اور مضبوط شواہد کی بنیاد پر مجرم ثابت کرکے ان کو سزائیں دلوانا اور ان سے ملک و قوم کی لوٹی ہوئی رقم وصول کرنا ہوتاہے،ایسے افراداحتساب کے اس عمل کے نتیجہ میں مجرم ثابت ہوکر قابل نفرت اور عبرت بن جاتے ہیں، دوسری جانب ہمارے یہاں احتسابی عمل سے اس کے بالکل بر عکس نتائج ظاہر ہوتے ہیں ۔ بڑے بڑے الزامات اور تفتیش کے لیے مہینوں مہینوں کی گرفتاریوں کے باوجود کسی پر کرپشن ثابت ہے نہ ہی کسی کو سزا ہوتی ہے، اگر کسی کو سزا ہوبھی جائے تو وہ اس قدر کمزور بنیادوں پر ہوتی ہے کہ وہ بر قرار نہیں رہ پاتی ہے ،احتساب کے اس سارے عمل سے کسی سے کوئی رقم وصول نہیں ہوپاتی ہے جبکہ خود اس احتساب پر ملک اور قوم کا براہ راست اور باالواسطہ خطیر سرمایہ خرچ ہورہا ہوتا ہے، اور آخر میں مبینہ طور پر وہی کرپٹ لوگ اسی احتساب کی برکت سے صاف ستھرے ہوکر اور ہیرو بن کر قوم کے سامنے موجود ہوتے ہیں،قابل نفرت بننے کے بجائے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوچکا ہوتا ہے اور وہ آئندہ کے لیے حصول اقتدار کی دوڑ میں بھی شامل ہوتے ہیں ۔

غرض یہ کہ حقیقی اور بامقصد احتساب کے لیے احتساب کے نظام کے حوالہ سے انتہائی سنجیدہ غوروفکر اور ماضی و حال سے مستقبل کے لیے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ملک اب مزید اس قسم کے کسی غیر حقیقی اور بے مقصد و لایعنی احتساب کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.