طُرّم خان نہ بنیں

مبارک ہو،جناب بہت مبارک ہو…ہم سب مبارکباد کے مستحق ہیں،آپ مجھے دیجئے اورمیں آپ کودیتاہوں۔کوئی تو خوشی کی خبرآئی،مسرت اورشادمانی لائی،لبرلزکومبارک ہو،روشن خیالوں،سیکولرزاورپروگریسوزکوصدلاکھ مبارک ہو،سینیٹ میں مخصوص نشستوں کے ذریعے بیٹھی خواتین کی نمائندہ ممبران کومبارک ہو،حقوق انسا نی کے چمپئن کے دعوے داروں کو مبارک ہو۔
اوہومیں توبھول ہی گیا‘اہل جبّہ ودستارکومبارک ہو۔آپ ا تنے بے چین کیوں ہیں ؟سناتا ہوں وہ خوشخبر ی آپ کو بھی، لیکن سب سے پہلے مجھے کچھ سوالات کے جوابات درکار ہیں ۔ آخر آپ اہل دانش و بینش ہیں،اہل نظر اور اہل دل ہیں،سچ بتاؤں ،یہ اہل نظر اور اہل دل لکھتے ہوئے نجا نے کیوں مجھے ہنسی آ رہی ہے!

یہ بتا ئیے کہ میرے رب نے عورتوں کو کیوں پیدا کیا ہے؟عورتیں مردوں کی غلا می کیلئے پیدا کی گئی ہیں؟میرے رب نے عورتوں کو حقوق سے محروم رکھا ہے؟کیا مردوں کو یہ اختیار حاصل ہیں کہ وہ حقوق جو رب نے عورتوں کو دیئے ہیں ،وہ سلب کر لیں؟کیا عورتیں انسان نہیں ہوتیں؟ جب مرد عورتوں کے حقوق غصب کریں،تب ان کے پاس کیا دلا ئل ہو تے ہیں، کون سا جواز ہو تا ہے؟

سوالات تو بہت ہیں ۔بس مجھے ان چھ سوالات کے فی الحال جوا بات درکار ہیں۔مجھے یقین ہے کہ آپ سب مجھے ان چھ سوالات کے جو ابات دیں گے اور دینا بھی چاہئے۔جنت ماں کے قدموں تلے ہے،بچپن سے پڑھ اور سن رہا ہوں لیکن جس کے قدموں تلے جنت ہے اس کی حالت کیا ہے اس سماج میں؟کیا آج کی بچی کل کی ماں نہیں ہے؟

مجھے بتایا گیا ہے کہ جب مرد شادی کرتاہے تواس سے اجازت لیناضروری ہے،بے حد ضروری۔میں خود بہت سی لڑکیوں کی طرف سے وکیل رہاہوں،میں اکیلا ہی کا فی نہیں تھا، میرے تقرر کیلئے دو گواہ ضروری تھے۔پھر ان دو گو اہوں کی مو جو دگی میں لڑکی سے اجازت لیتا اور اور نکاح خواہ ان دونوں گواہوں سے پو چھتا تھا کہ کیا لڑکی نے بلا کسی جبرو کراہ کے اپنی خوشی سے مجھے اجا زت دی ہے؟تب نکاح شروع ہوتاتھا۔ا چھا یہ بتایئے کہ ہما رے کتنے گھرانے ایسے ہیں کہ جب کوئی رشتہ آئے تو لڑکی سے دریافت کر تے ہیں کہ بتاؤ فلاں کا رشتہ تمہارے لئے آیا ہے ،تم کیا کہتی ہو،تمہیں قبول ہے؟ میں بہت ا چھی طرح جا نتا ہوں کہ شاذو نا در ہی ایسا ہو تا ہے ،وہ جسے زندگی گزارنی ہے ،اس سے کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔ جی جناب !بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔اچھا یہ بتایئے اگر کوئی لڑکی خود کہہ دے ……با لغ لڑکی کی بات کر رہا ہوں کہ مجھے فلاں لڑکے سے بیاہ دو،تب کتنے گھر انے ہیں جو اس کی بات سنیں گے؟پہلا طعنہ تو وہ ا پنے گھر وا لوں سے سنے گی کہ’’اچھاگل کھلایاتم نے ،تمہاری زبان کیوں نہ جل گئی ایسی بات کہنے سے پہلے ؟اگر باپ یابھائیوں کو پتہ چل گیا تو تم دو نوں کی جان نکال دیں گے ‘‘۔

مجھے صرف ایک بات بتا یئے ،کیا یہ حق اللہ نے لڑکی کو نہیں دیا؟اور جب وہ اسے استعمال کرے تب آپ کی تیوری پر بل پڑ جا تے ہیں ۔ہا ں ہا ں ،مجھے معلوم ہے ۔ایک جواز توآپ یہ لا تے ہیں کہ وہ اتنی سمجھ بوجھ نہیں رکھتی کہ ا پنے مستقبل کا صحیح فیصلہ کر سکے۔اگر یہی دلیل ہو تو والدین کی طے کردہ شادیوں میں اتنے مسائل کیوں پیدا ہو جا تے ہیں کہ بات علیحدگی تک پہنچ جا تی ہے۔غلطی تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے ۔جب آپ سے ہو جائے توبچی کا نصیب ٹھہر تی ہے اور جب لڑکی سے ہو جائے تو اسے دھتکار دیا جا تا ہے۔عذاب بنا دی جاتی ہے اس کی زندگی!

جب میرے رب نے اسے پسند کی شادی کر نے کا اختیاردیا ہے تو آپ کون سے پھنے خان ہیں جو اس کے حقوق سلب کریں ۔ کہیں اسٹیٹس ہے ،کہیں سماج ہے ،کہیں برادری ہے اور کہیں رواج ہیں،نجا نے کتنی بلائیں ہیں۔ اسلام نے ان تمام بلا ؤں سے انسان کو آزاد پیدا کیا تھا ،ہم نے خود ہی ان کو اپنے گلے کا پھندہ اور طوق بنا لیا ہے۔معتوب صرف عورتیں ہیں ۔ بھیڑ بکریاں ہیں یہ کہ جس کھونٹے سے چا ہے باندھ دو ،جیسا چا ہو برتاؤ کرو،ما رو پیٹو!آپ مرد ہیں ناں بھئی ،آپ میں سرخاب کے پر جو لگے ہوئے ہیں۔ہر دلیل اپنے لئے استعمال کر نے کا ہنر جا نتے ہیں ،اہل ہنر جو ٹھہرے۔

میں بتاؤں آپ کوکچھ،اگر آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے۔اگر گزرے تو گزرے ،میں نے نہیں کہا یہ۔کیا آپ جا نتے ہیں کہ بیوی اپنے شوہر سے بچوں کو دودھ پلانے،کھا نے پکا نے ،گھر کے کام کاج اور شوہر کی خدمت کا معاوضہ طلب کر نے کا حق رکھتی ہے۔جی با لکل!اگر وہ آپ کے ماں باپ کی خدمت کرے ،اس کا بھی۔جناب اگر وہ کہیں کام کرے تو وہ رقم جو اس نے کمائی ہے وہ اس کی ہے ۔آپ اس سے نہیں پوچھ نہیں سکتے کہ وہ اسے کہاں خرچ کرے گی،چا ہے وہ کسی کو بھی دے۔اسلام واحد دین ہے جس نے عورتوں کو وراثت میں حصہ دار بنایاہے۔جی جناب!چلئے آپ معلومات کرلیجئے۔یہ ہے اسلام جو عورتوں کو صرف پسند کی اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ یہ جو مندرجہ بالا سطور میں آپ کی خدمت میں چند با تیں پیش کی ہیں اس کی بھی اجازت دیتاہے۔

اور ہم کیا کر تے ہیں؟ہما را رویہ عورتوں کے ساتھ کیساہے؟اس کیلئے توکئی کتب درکار ہیں جناب!خوب لکھائیں پڑھوائیں گے،نازونعم سے پالیں گے، اس کے پاؤں میں کانٹاتک نہیں چبھنے نہیں د یتے اورپھرا پنے ہی ہا تھوں کنویں میں دھکیل دیں گے۔ہر چیز میں اپنی مرضی،اس غریب کی مرضی کون پوچھتاہے!بس مردہیں طرم خان۔ا پنے آس پاس بھی نہیں دیکھتے۔آپ کے سارے دعوے عورتوں نے غلط کردکھائے ہیں،کیانہیں کرسکتی وہ،ذرا بتا یئے؟آپ سے اچھا کردکھاتی ہے،لیکن ہما رے اندر جو ایک مرد بیٹھا ہوا ہے ،کوبرا ناگ،اس کازہر بڑھتاہی رہتاہے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355834 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.