جہاں کورونا وائرس نے ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کو موت
کی وادی میں پہنچایا وہاں یہ وائرس عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا جھٹکا
بھی لگا رہا ہے اور ستم یہ کہ موذی وائرس قابو میں آنے کو تیار نہیں
ہے۔پوری دنیا میں خوف و ہراس کی فضا بن چکی ہے ۔کوروناوائرس کی ابتدا
جانوروں اور سی فوڈ مارکیٹ سے چین کے شہر ووہان سے ہوئی،اس وقت سواسو کے
قریب ممالک اس وائرس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔دنیا بھر میں اس مرض سے متاثرہ
افراد کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے اور 4700 سے زائد
لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔پاکستان میں بھی تیس کے قریب کیسز سامنے
آئے ہیں ،جن میں زیادہ تر ایران کا سفر کر چکے ہیں۔دنیا بھر کی ترجیحات،
رجحانات اور اہداف تبدیل ہو چکے ہیں ۔ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر سبھی
ممالک ہر ممکن احتیاطی تدابیر، حربے اور اقدامات سمیت مشکل ترین فیصلے کرنے
پر مجبور ہیں ،لیکن پاکستان میں صحت کے شعبے کے حالات نا گفتہ بہ ہیں ۔اسی
لئے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس مرض کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنے کے
اقدامات کرنے میں سنجیدگی نہیں پائی جا رہی ہے ۔سندھ حکومت بین القوامی
احتیاطی اقدامات پر عمل پیرا ہے،مگر پنجاب حکومت کی توجہ دوسرے معاملات پر
مرکوز ہیں ۔بزدار سرکار سندھ حکومت سے مختلف ہے،پنجاب میں مقامِ بالا کی
منشا اور منظوری سے فیصلہ سازی ہوتی ہے،جب کہ سندھ غلط یا درست فیصلے اپنی
مرضی اور مشاورت سے کر رہی ہے ۔یہاں بزدار سرکار نے تو ہسپتالوں سے متعلق
متنازعہ ایکٹ ایم ٹی آئی اسمبلی میں پیش کر دیا،جس پر ہائی کورٹ بھی
ریمارکس دینے پر مجبور ہو گئی کہ کورونا کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور پنجاب
حکومت نے ڈاکٹروں کے خلاف بل پیش کر دیا ہے ۔نجانے حکمرانوں کے ساتھ وہ کون
سے سقراط نما ذہین رکھنے والے شخصیات ہیں جو بلنڈر کے لئے ہمیشہ غلط وقت کا
تعین کرتے ہیں۔
دنیا میں جہااں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں،وہاں عالمی مارکیٹ
میں خام تیل کی قیمتیں 30فیصد کم ہونے سے عالمی اسٹاک مارکیٹ بھی کریش کر
گئیں ہیں ۔اگر حکمران حکومت بچاؤ پروگرام سے توجہ ہٹا کر اس وقت عالمی
مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے فائدہ اٹھانے کے لئے جامع حکمت عملی
تشکیل دے کہ وہ عالمی تیل بحران سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے
ہیں،اپنی آمدن کو بڑھا کر گردشی قرضوں کو میں کمی بھی لا سکتے ہیں،لیکن
ہمارے وزیر اعظم عمران خان اپنی بیان بازی سے آگے قدم نہیں بڑھا پا
رہے۔انہوں نے عوام کو بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کرنے کا عندیہ دیا
تھا،انہوں نے عوام کو باور کرایا کہ حکومت کے لئے 2019ء سب سے مشکل وقت
تھا،اب اچھا وقت آ رہا ہے اور ہم نے مہنگائی پر قابو پا چکے ہیں،لیکن ادھر
سے وزیر اعظم کا بیان آتا ہے ادھر یہی بیان ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے جب
گیس کے نرخوں میں اضافے کے لئے اوگرا کو درخواست دے دی جاتی ہے،اسی طرح
بجلی صارفین پر بھی کوارٹر ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے اضافی بلوں کا
ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے ۔عوام کے ساتھ کیا گیا یہ سنگین مذاق حکومت کے سر
پر ہی جائے گا۔وزیر اعظم نے اعلان تو آٹا اور چینی کے بحران پیدا کرنے
والوں کو عوام کے سامنے لا کر کیفر کردار تک پہنچانے کا بھی کیا تھا۔اس کی
ایف آئی اے نے انکوائری رپورٹ بھی حکومت کو پیش کر دی ہے ،لیکن ابھی تک
رپورٹ کے مطابق ذخیرہ اندوز مافیا کے نہ تو نام سامنے آئے ہیں اور نہ ہی
کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ۔اس سے بادی النظر میں صاف نظر آتا ہے
کہ عمران خان کے اپنے اردگرد کے ساتھی اپنی ذاتی مفادات کے لئے حکومتی
انتظامی مشینری معاونت سے غریب عوام کو ’’چونا‘‘لگاچکے ہیں اور مسلسل دیدہ
دلیری سے لگا رہے ہیں۔چیئرمین نیب گاہے بگاہے بلا امتیاز اور بے لاگ احتساب
کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں تاہم عوام کو اپنے اقتصادی مسائل کے حل کے لئے جن
حکومتی اقدامات کی ضرورت تھی وہ اب تک عملی قالب میں ڈھلتے نظر نہیں ٓئے ۔اس
میں شک نہیں کہ کرپشن فری سوسائیٹی عوام کا مطمح نظر ہے ،تاہم انہیں فی
الوقت روٹی،روزگار کے مسائل درپیش ہیں ۔وزیر اعظم سے رومانس کرنے والے بھی
مہنگائی میں بتدریج اضافہ سے ٹوٹ چکے ہیں ۔عوام کی قوت خرید کم ترین سطح پر
پہنچ چکی ہے ۔خط غربت کی لکیر کے نیچے جانے والے مفلوک الحال عوام کی تعداد
بڑھتے بڑھتے ملک کی نصف آبادی کی حد عبور کر گئی ،جب کہ حکومتی وزراء اور
مشیر ملک کی اقتصادی بد حالی کے معاملہ میں سابق حکمرانوں کو مطعون کرنے کے
ساتھ ساتھ عوام میں مایوسیاں بڑھانے کا اہتمام کرتے بھی نظر آئے ہیں ۔حکمران
مہنگائی میں کمی اور روزگار کے حصول و تحفظ کے معاملہ میں عوام کی دل شکنی
کر رہے ہیں ۔ایسی پالیسیوں سے مجبور و مقہور عوام کا حکومتی گورننس کے
معاملات پر مشتعل و مضطرب ہونا بھی فطری امر ہے ۔اس سلسلے میں وزیر اعظم
کوصرف اپوزیشن پر زور آزمانے کے ساتھ ساتھ اپنے بیانات اور احکامات کو ہوا
میں اڑانے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لینے کی ضرورت ہے ۔ویسے عملاً ان کی
حکومت اورگورننس فیل ہو چکی ہے ۔عمران خان کو تقریباًدو برس حکومت کرنے کا
عرصہ گزر چکا ہے،اب نا کامیوں اور نا اہلیوں کا ماضی کے حکمرانوں پر ملبہ
ڈالنے کا وقت گزر چکا ہے ۔اگر انہیں غلط مان بھی لیں تو آپ کو درست کرنے کے
لئے لایا گیا تھا ۔اس کے لئے بقول عمران خان کے 90روز درکار تھے ․․․تین ماہ
ہوئے اور پھر ایک سال․․․لیکن اب عرصہ کافی ہو چکا ہے ،نتیجہ صفر ہے۔اس کے
لئے حکمرانوں کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا از سرِ نو جائزہ لینا ہو گا
اور فہم و حکمت سے پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے ۔
رہی کورونا وائرس کی وبا کی،بطور مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے اور قرآن مجید
کی سورہ الانعام میں ذات باری تعالیٰ نے یہ کھول کھول کر بیان بھی فرمایا
ہے کہ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے)کا ایک وقت مقرر کر
دیا اور ایک مدت اس کے ہاں اور مقرر ہے ۔پھر تم (خدا کے بارے میں )شک کرتے
ہو۔ بے شک موت کا وقت متعین ہے اور مرض میں مبتلا کرنا ہے اور اس سے پناہ
مانگنی ہے ۔ہمیں احتیاطی تدابیر تو بہر صورت اختیار کرنی چاہیں ،مگر اپنی
بد اعمالیوں پر خدائے بزرگ و برتر سے معافی کا بھی خواست گار ہونا چاہیے ۔اگر
ہم احتیاطی تدابیرکے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں سے بھی تائب ہو جائیں احکام
خداوندی سے سرکشی کی روش ختم کر دیں،اس کی متعینہ مکروہات و ممنوعات سے
گریز اور پرہیز کریں قدرت کی کار سازی اور اس کے متعینہ نظام کائنات کو بسر
وچشم قبول کریں ۔اﷲ تعالیٰ کی تابعداری اور عجز و نیاز کو شعار بنا کر قہر
خداوندی سے بچ سکتے ہیں ۔
|