|
شین واٹسن دھیمے موڈ میں تھے، وکٹ پہ رکے رہنا چاہتے تھے کہ کوئی اور بحران
پیدا نہ ہو جائے۔ لیکن اچانک وہ باؤنسر نما وائیڈ گیند پھینکا گیا جسے
امپائر نے وائیڈ نہیں دیا اور واٹسن امپائر کے فیصلے سے قطعی خوش نہیں
دکھائی دئیے۔
واٹسن کی یہ ناراضی پہلے تو غصے میں بدلی اور پھر اس کا ردِعمل شروع ہوا جس
میں کراچی کا خالی گراؤنڈ واٹسن کے بلے کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ ہر گیند
مڈل ہونے لگی اور سٹروک باؤنڈری کے پار جانے لگے۔ یہ اس سیزن میں واٹسن کی
پہلی دھماکے دار پرفارمنس تھی۔
مگر افسوس کہ یہ اس سیزن میں واٹسن کا آخری میچ تھا۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پی ایس ایل کی سب سے پیاری ٹیم ہے۔ پہلے سیزن سے گزشتہ
سیزن تک یہ ہمیشہ فیورٹ رہے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ فائنل کھیلنے والی ٹیم ہے
اور اگر گئے سیزنز میں غیر ملکی کھلاڑیوں کے پاکستان آمد پہ تحفظات آڑے نہ
آتے تو شاید سب سے زیادہ ٹائٹلز جیتنے والی ٹیم بھی یہی ہوتی۔
حالیہ سیزن مگر کوئٹہ کا بدترین سیزن ثابت ہوا ہے۔ اگر کل شب کی جیت شاملِ
حال نہ ہوتی تو سرفراز کی ٹیم اس بار ٹیبل کے اس آخری خانے میں براجمان
ہوتی جہاں پہلے چار سیزنز لاہور قلندرز کی بلاشرکتِ غیرے حکومت رہی ہے۔
واٹسن ہی نہیں، کل شب پوری ٹیم خوب جان سے کھیلی۔ پہلی گیند سے ہی واضح
فائٹ نظر آئی کیونکہ یہ موہوم سی امید تو بہرحال سبھی کو تھی کہ اگر کوئی
معجزاتی پرفارمنس ہو گئی اور بڑے مارجن سے فتح مل گئی تو رن ریٹ اتنا بھلا
ہو جائے گا کہ سیمی فائنلز میں جگہ مل جائے گی۔
لیکن یہ امید موہوم ہی رہی۔ کیونکہ لاہور سے پہلے میچ میں کوئٹہ کی بیٹنگ
لائن نے اس قدر برا پرفارم کیا تھا کہ اس خسارے کے دھبے دھونے کو صرف ایک
اچھی پرفارمنس ناکافی تھی۔
کوئٹہ کے لئے یہ سیزن بیٹنگ، بولنگ اور کپتانی تینوں لحاظ سے مایوس کن رہا۔
|
|
سرفراز احمد کی فارم کا جو ناگفتہ بہ سلسلہ پچھلے سال کے اوائل سے شروع ہوا
تھا اور قومی ٹیم میں ان کی جگہ تک ختم ہونے کی وجہ بنا، وہ پی ایس ایل میں
بھی قریب قریب جاری رہا۔
اس میں شبہ نہیں کہ سرفراز نے فٹنس پہ بھرپور دھیان دیا ہے اور یہ چیز ان
کی وکٹ کیپنگ میں بھی بخوبی جھلکتی نظر آئی مگر بلے کے ساتھ وہ اپنی ٹیم کو
کوئی قائدانہ کارکردگی فراہم نہ کر پائے۔ یہ چیز بحیثیتِ مجموعی پوری ٹیم
اور بالخصوص بیٹنگ یونٹ کے مورال کے لئے حوصلہ افزا ثابت نہیں ہوئی۔
پاور پلے کا ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بڑا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ پوری اننگز کی ٹون
اس مرحلے میں طے ہوتی ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی بدقسمتی رہی کہ احمد شہزاد
کی خراب فارم کے طفیل پاور پلے میں یہ کبھی بھی میچ پہ اپنے پنجے گاڑ نہیں
پائے۔
ایک اچانک دھچکا جو گلیڈی ایٹرز کو لگا، وہ عمر اکمل کی پراسرار سرگرمیوں
اور ان کے نتیجے میں عائد پابندی کی شکل میں نکلا۔ اگر عمر اکمل مڈل آرڈر
میں اس ٹیم کو دستیاب رہتے تو یقینا سکور بورڈ پہ بہتر مجموعے تشکیل دینے
کی پوزیشن میں رہتے۔
اعظم خان اس سال کے ایمرجنگ پلیئر تھے اور کوئٹہ کی ٹیم نے ان سے امیدیں
بھی بہت جوڑ رکھی تھیں لیکن ایک دو بڑی اننگز کے سوا وہ خود سے جڑی امیدوں
سے انصاف نہیں کر پائے۔ کہا گیا تھا کہ لوگ کرس گیل کو بھول جائیں گے مگر
لوگ نہ بھول سکے۔
|
|
لیکن سب سے بڑا خسارہ کوئٹہ کو بولنگ کے شعبے میں رہا جہاں ایک طرف تو نسیم
شاہ کی انجری نے کمبینیشن متاثر کیا، وہیں یہ امر بھی نہایت حوصلہ شکن رہا
کہ اس سیزن میں کوئٹہ کے کسی بھی بولر کا اوسط اکانومی ریٹ آٹھ سے کم نہیں
رہا۔
ٹی ٹونٹی میں ایسا اکانومی ریٹ کسی بھی بولنگ یونٹ کے لئے باعثِ قرار نہیں
ہوتا۔ یہی کلیدی وجہ رہی کہ دیگر ٹیمیں بلے کے ساتھ کوئٹہ پہ حاوی ہوتی
رہیں اور بڑے سکورز کے تعاقب نے بیٹنگ یونٹ کو بھی پریشر میں ڈالے رکھا۔
سرفراز کل شب کہہ رہے تھے کہ انہیں اس جیت کی خوشی بھی ہے مگر ساتھ ہی یہ
افسوس بھی کہ رن ریٹ کے سبب وہ سیمی فائنلز میں پشاور کی جگہ نہیں لے سکے۔
کچھ ایسی ہی بات ورلڈ کپ 2019 کے بعد بھی انہوں نے کی تھی کہ اگر بارش بیچ
میں حائل نہ ہوتی اور رن ریٹ کا قضیہ کھڑا نہ ہوتا تو نیوزی لینڈ کی بجائے
ان کی ٹیم ہوتی جو سیمی فائنل کھیلتی۔
کرکٹ بہت وسیع پہلوؤں پہ منحصر کہانی ہے۔ بارش اور رن ریٹ ان میں سے بہت
چھوٹے چھوٹے پہلو ہیں۔ یہ چیزیں بلاشبہ قسمت کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر بہت سی
چیزیں ایسی ہیں جو قسمت نہیں، قوت کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ جو قوت سے قابو
نہیں پا سکتے، ان کے پاس قسمت کی دلیل ہی باقی رہ جاتی ہے۔
سو سرفراز احمد کا افسوس بالکل بجا مگر یہ بھی تو سوچیے کہ وجہ کیا۔۔۔ کیا
صرف رن ریٹ ہی خراب تھا یا قسمت بھی؟ فی الوقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ہی
خراب تھے لیکن ان کا رن ریٹ یقیناً قسمت سے بھی زیادہ خراب تھا۔
|