این او سی، سگریٹ، اور چار میچوں کی قربانی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
|
پاکستان میں ہاکی صرف ایک کھیل نہیں رہی، یہ اب ایک مکمل فائل سسٹم بن چکی ہے۔ ایسا سسٹم جس میں پاس، فائل، سمری، نوٹ شیٹ اور این او سی کا اسکور ہر وقت صفر کے قریب رہتا ہے، جبکہ میچ کا نتیجہ پہلے ہی فکس ہو چکا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ شکست میدان میں ہوتی ہے اور فتح فائل میں۔اب ذرا حالیہ دورہ ارجنٹینا کو ہی دیکھ لیں۔ ٹیم گئی، کھیلی، ہاری، واپس آگئی۔ سب کچھ معمول کے مطابق۔ غیر معمولی چیز صرف یہ نکلی کہ این او سی واپسی کے دن جاری ہوا۔ یعنی ٹیم پہلے کھیل کر آئی، پھر اجازت ملی۔ یہ وہی اندازِ حکمرانی ہے جس میں پہلے بارش ہوتی ہے اور بعد میں محکمہ موسمیات پیش گوئی جاری کرتا ہے۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود این او سی بتا رہا ہے کہ یہ 17 دسمبر کو جاری ہوا، جبکہ اسی دن ٹیم لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کر رہی تھی۔ یعنی این او سی نے بھی شاید کہا ہوگا کہ “بھئی ہم پیچھے رہ گئے، آپ لوگ آ جائیں، ہم بعد میں آ رہے ہیں۔”پی ایس بی کی پالیسی بڑی واضح ہے۔ بغیر این او سی کوئی ٹیم باہر نہیں جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹیمیں چلی جاتی ہیں، کھیل بھی لیتی ہیں، اور واپس بھی آ جاتی ہیں۔ این او سی بس ایک یادگاری دستاویز بن چکا ہے، جیسے شادی کے بعد نکاح نامہ یا الیکشن کے بعد فارم 45۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ این او سی میں وزارتِ داخلہ کی کلیئرنس بھی شرط رکھی گئی تھی۔ یعنی کاغذ پر تو صاف لکھا ہے کہ “شرکت کی اجازت ہے، بشرطیکہ وزارتِ داخلہ اجازت دے۔” اب سوال یہ ہے کہ جب اجازت نہیں آئی تو ٹیم کیسے گئی؟ جواب سادہ ہے۔ پاکستان میں “بشرطیکہ” کا مطلب ہوتا ہے “اگر یاد آیا تو”۔ہاکی فیڈریشن شاید یہ سمجھتی ہے کہ وزارتِ داخلہ کوئی پڑوس کی دکان ہے، جہاں سے جاتے ہوئے پوچھ لیں گے کہ بھائی اجازت دے دو۔ اور وزارتِ داخلہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ ہاکی کوئی پرانا کھیل ہے، اب اس پر کون وقت ضائع کرے۔
یہ پہلا موقع نہیں۔ ماضی میں بیس بال فیڈریشن کو بھی بغیر این او سی ٹیمیں بھیجنے پر نوٹس ملا۔ جواب میں فیڈریشن نے بڑے معصومانہ انداز میں کہا کہ “جناب، این او سی دیر سے ملتا ہے، اگر ٹیم نہ بھیجیں تو عالمی ادارے جرمانہ کر دیتے ہیں۔” یعنی ایک طرف جرمانہ، دوسری طرف نوٹس۔ فیصلہ آپ خود کریں کہ کون سا درد کم ہے۔پاکستان میں اسپورٹس بورڈ اور فیڈریشنز کا رشتہ اب میاں بیوی جیسا ہو چکا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ساتھ بھی نہیں رہ سکتے۔ پی ایس بی کہتا ہے کہ انتخابات ہم کرائیں گے۔ فیڈریشنز کہتی ہیں کہ یہ حکومتی مداخلت ہے، ہمیں بین الاقوامی پابندی لگوا دے گی۔ پی ایس بی کہتا ہے “تو لگوا لو” اور فیڈریشنز کہتی ہیں “ہم پہلے ہی لگوا بیٹھے ہیں”۔
اسی دوران میدان میں کھلاڑی کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ نہ جانتے ہیں این او سی کیا ہوتا ہے، نہ سمری، نہ وزارتِ داخلہ۔ انہیں صرف اتنا پتا ہوتا ہے کہ سامنے ہالینڈ ہے یا ارجنٹینا، اور اسکور بورڈ پر صفر کیوں چمک رہا ہے۔اب آئیے اس کہانی کے سب سے رنگین کردار کی طرف۔ ٹیم مینیجر۔ جناب انجم سعید۔ خبر یہ اڑی کہ انہیں جہاز سے اتار دیا گیا کیونکہ انہوں نے سگریٹ پی لی تھی۔ پاکستانی میڈیا کو ایسی خبر ویسے ہی بہت پسند آتی ہے۔ ہاکی ہار گئی؟ کوئی بات نہیں۔ مینیجر نے سگریٹ پی؟ بریکنگ نیوز۔
کہا گیا کہ جہاز کے واش روم میں سگریٹ نوشی سے الارم بج گیا، اور انجم صاحب کو باہر نکال دیا گیا۔ بعد میں وضاحت آئی کہ نہیں، وہ برازیل میں نہیں اتارے گئے، وہ تو دبئی میں ایک کھلاڑی کے ساتھ رک گئے تھے۔ یعنی سگریٹ بھی اپنی جگہ، جغرافیہ بھی اپنی جگہ۔انجم سعید کا مو¿قف بھی سن لیں۔ کہتے ہیں، “میں ہاکی خاندان سے ہوں، ہمارے گھر نے چار اولمپئن دیے ہیں۔ میرے مخالفین یہ خبر پھیلا رہے ہیں۔” اب سوال یہ ہے کہ اگر چار اولمپئن دینے والا خاندان بھی اس حال کو پہنچ گیا ہے تو باقی خاندانوں کا کیا ہوگا؟
ویسے بھی پاکستانی ہاکی میں سب سے زیادہ دھواں سگریٹ سے نہیں، نظام سے اٹھتا ہے۔ سگریٹ کا الارم تو جہاز میں بجا، یہاں تو پورا سسٹم جل رہا ہے، مگر کوئی فائر الارم نہیں۔چار میچ، چار شکستیں۔ دو ہالینڈ سے، دو ارجنٹینا سے۔ یہ نتائج کسی کو حیران نہیں کرتے۔ حیرت صرف یہ ہوتی ہے کہ ہم اب بھی میچ کھیلنے جاتے ہیں، یا صرف این او سی کی تاریخ پوری کرنے؟کھلاڑی بیچارے سوچتے ہوں گے کہ اگر ہم فائل ہوتے تو شاید زیادہ اہمیت ہوتی۔ کم از کم وقت پر دستخط تو ہو جاتے۔ یہاں تو کھلاڑی پہلے روانہ ہوتے ہیں، بعد میں اجازت ملتی ہے، اور آخر میں وضاحتیں آتی ہیں۔
پاکستانی ہاکی کا اصل کھیل اب ٹرف پر نہیں، دفتروں میں کھیلا جا رہا ہے۔ جہاں فائل کو ایک میز سے دوسری میز تک پہنچانا سب سے بڑا اسکل ہے۔ جو جتنا سست ہے، وہ اتنا ہی مضبوط افسر سمجھا جاتا ہے۔ آخر میں بس ایک سوال رہ جاتا ہے۔ اگر ٹیم بغیر این او سی جا سکتی ہے، بغیر وزارتِ داخلہ کی اجازت کھیل سکتی ہے، بغیر جیت کے واپس آ سکتی ہے، تو پھر این او سی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ شاید این او سی صرف اس لیے ہے تاکہ خبر بن سکے، کالم لکھے جا سکیں، اور ہم ہر چند ماہ بعد یہی سوال دہرا سکیں کہ پاکستان ہاکی آخر جا کہاں رہی ہے؟ جواب سادہ ہے۔ پاکستان ہاکی کہیں نہیں جا رہی۔ وہ بس آ جا رہی ہے۔ بغیر اجازت، بغیر جیت، اور بغیر شرم۔
#PakistanHockey #NOCDrama #SportsBureaucracy #HockeyCrisis #PSB #PHF #FIHProLeague #SportsSatire #PakSports #HockeyPolitics
|