اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں شودر کون ہیں؟ جواب فائلوں میں نہیں، رویّوں میں چھپا ہے

ہم نے بچپن میں پڑھا اور سنا کہ ذات پات کا نظام ایک پرانی سماجی بیماری ہے، جس میں شودر وہ طبقہ تھا جس کے لیے نہ قانون برابر تھا، نہ عزت۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ سب تاریخ بن چکا ہے۔ مگر جب تاریخ نئے لباس میں لوٹ آئے، تو پہچان مشکل نہیں رہتی۔ خیبر پختونخوا کے اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسی بدلتی ہوئی تاریخ کی ایک واضح مثال ہے۔ایشین کالج آف جرنلزم، چنائی بھارت میں وقت گزارا۔ وہاں بھی طبقاتی فرق دیکھا، ایلیٹ اور نان ایلیٹ کی لکیر واضح تھی۔ مگر اصل مسئلہ صرف فرق نہیں ہوتا، مسئلہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب کمزور کلچر اوپر پہنچ کر طاقت کا نشہ اختیار کر لے اور انسانیت بھول جائے۔ یہی المیہ ہمارے اپنے اداروں میں نظر آتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آتا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ نااہل لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہو جائیں گے۔ یہ بات صرف مذہبی تناظر میں نہیں، انتظامی اور اخلاقی تناظر میں بھی سچ ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ خیبر پختونخوا میں ایک خاموش طبقہ ہے۔ یہ ڈیلی ویج ملازمین ہیں۔ مالی، ہیلپر، چوکیدار، اسٹیج لگانے والے، کرسیاں اٹھانے والے، گیٹ پر کھڑے ہونے والے۔ ان کے بغیر کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی، مگر فائل میں ان کا وجود ثانوی ہوتا ہے۔ یہ اس ادارے کے جدید دور کے شودر ہیں۔

ان کی تنخواہیں سب سے آخر میں آتی ہیں، کبھی مہینوں بعد۔ بعض اوقات ایک سال تک کام لیا جاتا ہے، پھر بتایا جاتا ہے کہ پیسے “اوپر” رکے ہیں۔ وہ اوپر کہاں جاتے ہیں، کون لیتا ہے، یہ سوال ان کے لیے ممنوع ہے۔ کیونکہ سوال کرنے کی قیمت نوکری سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔25 دسمبر۔ پورے پاکستان میں سرکاری چھٹی۔ قائد اعظم کا دن، کرسمس۔ مگر اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں ڈیلی ویج ملازمین کو بلا لیا گیا۔ کبھی کہا گیا کہ اسکولوں کے فنکشن ہیں، حالانکہ اسکول بند ہیں۔ پھر بتایا گیا کہ 26 دسمبر کو نیشنل گیمز میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کے اعزاز میں پروگرام ہے، جو دوپہر دو بجے ہوگا۔سوال یہ ہے کہ اگر پروگرام کل ہے تو آج کیوں؟اور اگر آج آنا ضروری ہے تو صرف ڈیلی ویج کیوں؟

مستقل ملازمین چھٹی پر ہیں۔ افسران گھروں میں ہیں۔ مگر ڈیلی ویج حاضر ہیں۔ کیونکہ ان کے لیے قانون الگ ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو بجلی کے بل بھی دیتے ہیں، ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں، جن کے بچے ہیں، جن کے گھروں میں بھی عیدیں آتی ہیں۔ مگر چونکہ یہ ڈیلی ویج ہیں، اس لیے ان کے جذبات اور حقوق قابلِ بحث نہیں سمجھے جاتے۔یہاں ایک اور تلخ حقیقت بھی شامل کر لیجیے۔ ان شودروں میں مسیحی برادری کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ 18 اگست کو انہوں نے باقاعدہ درخواست دی کہ ان کا مذہبی تہوار آ رہا ہے، اس لیے تنخواہیں اس سے پہلے ادا کی جائیں۔ یہ کوئی غیر معمولی مطالبہ نہیں تھا، یہ خالص انسانی درخواست تھی۔ مگر نتیجہ؟24 دسمبر تک بھی تنخواہیں ادا نہیں ہوئیں۔

گزشتہ روز کم و بیش پچیس ملازمین ایک بڑے افسر کے دفتر کے باہر کھڑے رہے۔ امید شاید آج کچھ ہو جائے۔ پتہ نہیں ہوا یا نہیں۔ مگر یہ منظر خود بہت کچھ بتا دیتا ہے۔ انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جب اپنی عید پر تنخواہ نہ ملے تو کتنے احتجاج، کتنی شکایتیں کی جاتی ہیں۔ مگر مسیحی برادری کے تہوار پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ یہ فرق قانون کا نہیں، رویّے کا ہے۔یہ سب کچھ زبانی کلامی چل رہا ہے۔ تحریری حکم نہیں، واضح پالیسی نہیں۔ بس کہا گیا، بس مان لیا گیا۔ یہی وہ نظام ہے جہاں فردِ واحد کی حکومت ہوتی ہے۔ حکومتی پالیسی اپنی جگہ، مگر اصل قانون وہ ہے جو کرسی پر بیٹھا شخص طے کرے۔

اگر واقعی پالیسی موجود ہے تو اسپورٹس پالیسی 2018 پر کتنا عمل ہوا؟ اسے پبلک کیوں نہیں کیا جاتا؟ نیشنل گیمز میں خیبر پختونخوا کی کارکردگی کیوں سوالیہ نشان بنی؟ کتنے کھلاڑی 2025 میں بیرونِ ملک کے نام پر رقم لے گئے، مگر صوبے کی نمائندگی میں نتیجہ سلور اور برانز تک محدود کیوں رہا؟یہ سوال اس لیے بھی اہم ہیں کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت معلومات مانگی گئیں، مگر جواب نہیں دیا گیا۔ پھر جب صحافی نے خاموشی پر بات کی، تو معلومات نہیں ملیں، دھمکیاں ملیں۔ عدالت جانے کی باتیں ہوئیں۔ اگر سب کچھ قانون کے مطابق ہے تو خوف کس بات کا؟

حال ہی میں چند بھرتیاں ایک منتخب نمائندے کے کہنے پر ہوئیں۔ تین افراد، تینوں ایک ہی علاقے سے۔ اوپر سے آرڈر آیا، اس لیے بھرتی بھی ہوئی، رہائش بھی ملی۔ لالہ ایوب ہاکی اسٹیڈیم میں۔ ان میں سے دو سے ڈیوٹی لی جا رہی ہے، مگر ایک ایسا بھی ہے جسے کبھی سکواش کورٹ، کبھی کرکٹ اکیڈمی، کبھی گیٹ پر لگایا جاتا ہے۔ جب کہیں کام نہیں چلتا تو صاحب لوگ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ہدایت سادہ ہے۔ پروگرام ہو تو تصویریں لے لیا کرو، دفتر میں چکر لگا لیا کرو۔

چالیس ہزار روپے میں یہی ڈیوٹی ہے۔ چونکہ یہ ڈیلی ویج ہے مگر افسر کے ساتھ ہے، اس لیے کوئی سوال نہیں۔ اگر کسی کو شک ہو تو شواہد موجود ہیں۔یہاں ایک تلخ یاد بھی تازہ ہوتی ہے۔ ایک ڈی جی ایسا بھی گزرا جس نے اپنی جیب سے کیک منگوایا، کلاس فور ملازمین کی موجودگی میں کاٹا۔ ایک علامتی منظر تھا، شاید انسانی ہمدردی کا۔ پھر وہی دور آیا جب انہی ملازمین نے اپنی جیب سے کیک خریدا، صاحب کے سامنے رکھا، تصاویر بنیں۔ اور اب کا دور یہ ہے کہ نہ کیک ہے، نہ تنخواہیں۔

سوال بہت سیدھا ہے۔ کھیلوں کا ادارہ اس طرح چلایا جاتا ہے؟ کیا قانون واقعی سب کے لیے برابر ہے؟ یا ڈیلی ویج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے لیے الگ قانون ہوگا؟یہ کالم کسی فرد پر الزام نہیں۔ یہ ایک نظام پر سوال ہے۔ ایک ایسا نظام جو کمزور کو دبانے میں تیز اور جواب دینے میں سست ہے۔ ایک ایسا نظام جو کھیلوں کے نام پر تقریبات تو کرتا ہے، مگر کھیل سے جڑے انسانوں کو انسان نہیں سمجھتا۔اگر یہ سب کچھ یونہی زبانی کلامی چلتا رہا، تو مسئلہ صرف ڈیلی ویج ملازمین کا نہیں رہے گا۔ یہ سوال پورے اسپورٹس ڈھانچے پر اٹھے گا۔ اور پھر شاید خاموشی بھی کافی نہیں ہوگی۔

#SportsDirectorateKP
#DailyWageWorkers
#MinorityRights
#LabourRights
#HumanDignity
#RightToInformation
#Accountability
#RuleOfLaw

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 899 Articles with 716713 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More