کھیلوں کی ایسوسی ایشنز: فنڈز نہیں، ٹینشن بہت، مگر کرسی ہمیشہ محفوظ

پاکستان میں کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کا منظر ایسا ہے جیسے کسی قدیم قلعے میں داخل ہو جائیں، جہاں ہر پتھر، ہر کرسی، ہر رکن کی جگہ محفوظ ہے، مگر اندر کی حالت کچھ اور ہی کہتی ہے۔ یہاں فنڈز کی کمی ایک عالمی مسئلہ ہے، ٹینشن اتنی ہے کہ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ ہیلمٹ پہن کر آفس میں داخل ہوں، مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کرسی ہمیشہ محفوظ رہتی ہے۔

آپ کسی بھی ایسوسی ایشن میں جائیں، ایک ہی جملہ سننے کو ملے گا: “فنڈز نہیں ہیں، حالات خراب ہیں، ٹینشن بہت ہے، حکومت کچھ نہیں کر رہی، ہم خدمت کر رہے ہیں۔” یہ جملے ایسے ہیں جیسے کسی پرانے ریکارڈ سے نکال کر ہر اجلاس میں چلائے جائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی حالات اتنے خراب ہیں تو پھر یہ لوگ کرسی کیوں نہیں چھوڑتے؟ کبھی سوچا کہ شاید یہ کرسی “عیش و آرام کی مشین” ہے، جس میں بیٹھنے والا تھکن نہیں محسوس کرتا، صرف زبان پر رونا آتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی مثال خاص طور پر دلچسپ ہے۔ یہاں کچھ ایسوسی ایشنز ایسے خاندانوں کی جاگیر بن گئی ہیں، جیسے کسی تاریخی سلطنت میں بادشاہ اور وزیر ایک ہی خاندان کے ہوں۔ ایک بیٹا سیکرٹری، باپ چیئرمین، بیوی فنانس سیکرٹری، بھائی میڈیا کوآرڈینیٹر۔ اور اگر کہیں جگہ بچ جائے تو کسی دور کا رشتہ دار ٹرینی بن جاتا ہے۔ اور سب کہتے ہیں: “ہم خدمت کر رہے ہیں، کچھ نہیں رکھا۔” یہ خدمت بھی عجیب سی خدمت ہے، جس میں نہ استعفیٰ آتا ہے، نہ مدت پوری ہوتی ہے، نہ الیکشن کا مطلب سمجھ آتا ہے۔

الیکشن ہوتے ہیں؟ ہاں، ہوتے ہیں۔ مگر ایسے کہ امیدوار ایک ہی ہوتا، ووٹر بھی خاندان کا، باقی سب تماشائی۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کام کرنے والا کوئی موجود نہیں تو یہ لوگ کیوں برقرار رہتے ہیں؟ لگتا ہے کہ یہاں اصول یہ ہے: جتنا زیادہ رونا، اتنی مضبوط گرفت۔ فنڈز نہیں، ٹینشن ہے، مگر کرسی محفوظ۔ شاید یہی وہ جادو ہے جو کہیں اور نہیں ملتا۔

آڈٹ رپورٹس دیکھیں تو آدمی حیران رہ جائے۔ سال 2023، 2024، 2025، اسٹاف کی تنخواہیں بالکل ایک جیسی۔ نہ ایک روپیہ کم، نہ ایک روپیہ زیادہ۔ سوال پیدا ہوتا ہے: یہ ملازمین کون ہیں جو تین سال سے ایک ہی تنخواہ پر خوش ہیں؟ کیا یہ فرشتے ہیں، یا مہنگائی کا اثر ان پر نہیں ہوتا؟ یا یہ لوگ کسی اور سیارے سے آئے ہیں، جہاں آٹا، بجلی، گیس، اور کرایہ سب مفت ہے؟

اس سے بھی دلچسپ ہے کہ کئی رپورٹس میں اسٹاف کی تعداد واضح نہیں، مگر تنخواہ پوری لکھی گئی ہے۔ یعنی ملازم موجود نہیں، مگر تنخواہ ہے۔ اسے ہم کہہ سکتے ہیں: “غیر مرئی اسٹاف سسٹم”۔ کام کوئی نہ کرے، تنخواہ پوری ہو۔

انٹرنیٹ چارجز کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ہر ایسوسی ایشن کی انٹرنیٹ فیس الگ ہے۔ کسی کی بہت زیادہ، کسی کی کم، کسی کی درمیانی۔ کیا انٹرنیٹ سونے کے تار سے آتا ہے؟ یا کہیں سپیڈ مریخ تک جاتی ہے؟ اور کہیں شاید صرف ای میل کھولنے کے لیے پورا سال کا بل ادا کیا جاتا ہے۔ یہ سوال آڈٹ رپورٹس میں نہیں، مگر حقیقت میں صاف نظر آتا ہے۔ لگتا ہے کہ یہاں دو جمع دو کو بیس بنانے کا ماہر نظام چل رہا ہے۔

یہ لوگ سب سے زیادہ تقریریں کرتے ہیں: کھلاڑیوں کے مسائل، گراس روٹ لیول، ٹیلنٹ ہنٹنگ، انفراسٹرکچر۔ مگر عملی طور پر سب توانائی صرف کرسی بچانے، خاندان کو سیٹ کرنے اور کاغذی کارروائی سنبھالنے میں لگتی ہے۔ کھیل پیچھے رہ جاتا ہے، مگر کرسی مضبوط رہتی ہے۔جب کوئی صحافی یا کھلاڑی سوال کرے، فوراً جواب آتا ہے: “ہم تو رضاکارانہ کام کر رہے ہیں، ہمیں کوئی فائدہ نہیں، الٹا اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں۔” یہ جیب بھی عجیب ہے۔ کبھی خالی، کبھی اتنی گہری کہ پورا نظام سما جائے۔

اگر واقعی کوئی فائدہ نہیں، کچھ نہیں رکھا، ٹینشن بہت ہے، تو پھر یہ لوگ بیس بیس سال کیوں بیٹھے ہیں؟ ہر الیکشن میں یہی نام کیوں آتا ہے؟ نئے لوگ آگے کیوں نہیں آ پاتے؟ کھلاڑی صرف تصویروں تک محدود کیوں ہیں، اور فیصلے خاندان کے ڈرائنگ روم میں کیوں ہوتے ہیں؟اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری طرف کچھ عہدیداروں کے اثاثے بڑھتے جا رہے ہیں: بڑے بڑے گھر، گاڑیاں، لگڑری زندگی۔ فنڈز نہیں، ٹینشن بہت، مگر کرسی محفوظ، اور ساتھ میں جیب بھی بھری۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ لوگ “ٹینشن میں اضافہ، کرسی محفوظ، اثاثے بڑھاو¿” کا فارمولا استعمال کر رہے ہوں۔

یہ سب کھیلوں کا مسئلہ نہیں، شفافیت اور احتساب کا مسئلہ ہے۔ آڈٹ رپورٹس اور اعداد و شمار خود بولتے ہیں، پھر بھی “سب ٹھیک ہے” کا بیانیہ چلتا رہتا ہے۔ کھیل واقعی آگے بڑھانا ہے تو کرسیوں کو خاندانوں سے آزاد کرنا ہوگا۔ ورنہ یہی حال رہے گا: فنڈز نہیں، ٹینشن بہت، مگر کرسی ہمیشہ محفوظ۔تو جناب، یہ وہ جادو ہے جو پاکستان کے کھیلوں کی ایسوسی ایشنز میں چل رہا ہے۔ فنڈز کم، تنخواہیں ساکت، اسٹاف غیر مرئی، اور کرسی ہمیشہ خاندان کی ملکیت۔ اور ہم صرف حیران ہو کر دیکھتے رہیں کہ کھیل کہاں جا رہے ہیں، اور کرسی کس کے پاس محفوظ ہے۔

#SportsGovernance
#PakistanSports
#Accountability
#SportsCorruption
#AuditReports
#KP_Sports
#Transparency
#Nepotism

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 897 Articles with 716314 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More