تعلیم اور طلاق

ہر طرف گردش کرنے والا جملہ
ذیادہ طلاقوں کی وجہ تعلیم ہے

کافی عرصہ سے ہر طرف یہ پوسٹ بہت عام دیکھنے میں آرہی ہے کہ جب سے تعلیم عام ہوئی ہے تب سے طلاق کی شرح بہت بڑھ گئی ہے
اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ طلاق کی بڑی وجہ زیادہ تعلیم ہے کیونکہ زیادہ تر طلاق پڑھی لکھی لڑکی کو ہی ہو رہی ہیں
لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تعلیم سے کوئی برائی بڑھتی ہے تو پھر ہمارے اسلام میں علم کی اتنی فضیلت کیوں بیان کی گئی ؟ علم حاصل کرنے پے اتنا زور کیوں دیا گیا ؟ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پے فرض کیوں کیا گیا ؟ یہ بات میں اپنے پاس سے تو نئی کہہ رہی یہ حدیث ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پے فرض ہے اگر تعلیم سے کچھ ذرہ برابر بھی نقصان تھا تو یہ ہمارے دین اسلام میں کیوں فرض ہو کئی؟ کیا اسلام میں ایسی باتیں بھی شامل ہیں جن سے معاشرے میں فصاد ہو؟ یہ چند سوالات جن کے بارے میں سوچھے بغیر ہی ہم کسی بھی چیز کو از خود ہی صحیح غلط کا نام دے دیتے ہیں
آئیے ذرا غور کریں طلاق کی اصل وجہ کیا ہے

تعلیم یا پرورش
تعلیم یا عدم برداشت

تعلیم تو انسان کو نکھارتی ہے . تعلیم سے صحیح اور غلط کا فرق پتہ چلتا. لیکن ہمارے ہاں تعلیم کا الٹا اثر کیوں ہو رہا ہے
پہلے تو ہمیں تعلیم سے کوئی مطلب ہی نئی ہے چاہیئے تو صرف ڈگریاں
دکھاوے کی ڈگریاں
آج کے استاد کو تنخواہ چاہئیے اور طالب علموں کو ڈگری. پڑھا کیا ہے کچھ سمج آیا یا نئی آیا اس بات سے کسی کو کوئی فرق نئی پڑھتا
اور کچھ طالب علم خاص طور پر لڑکیاں وہ گھر کے کاموں سے بچنے کے لیے داخلہ لیتی ہیں

دوسری طرف ہماری نوجوان نصل اپنی ہی دنیا میں مگن زندگی کی اصل حقیقتوں دے بہت دور اپنے ہی رنگ میں جیتی ہے.
آئیے ذرا شادی پے غور کریں
پہلے اکثر ہی جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی تو اس کی ماں اسے بہت سی نصیحتیں کرتی گھر کیسے بسانا ہے. اگر کوئی مسلہ ہو تو کیسے اسے حل کرنا ہے . وغیرہ وغیرہ
لیکن آج کیا ہو رہا ہے . اب سب سے پہلی نصیحت مائیں یہی کرتی شوہر کو اپنی مٹھی میں رکھنا. ساس نندوں کو زیادہ سر پے مت چڑھانا انہیں جاتے ہی قابو کر لینا ورنہ بعد میں مشکل ہو گئی
لیکن خود کو جو بہو چاہئیے وہ گھر کے سارے کام بھی کرتی ہو ساس کی خدمت بھی کرتی ہو

اگر کوئی بزرگ بھلے کی بات کہہ دے تو تم کون ہوتے ہوہماری بات میں بولنے والے یہ ہمارے گھر کا مسلہ ہے

ہماری بہو ماصی کی طرح سب کام کرے لیکن ہماری بیٹی بہت نازک گڑیا ہے اسے سسرال میں کوئی چائے کا بھی کہہ دے تو اسے فورا ناراض ہو کر اپنی مظلومیت ظاہر کرنے کا پورا حق ہے
اپنی اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے.اپنی بیٹیاں سب کو ہی عزیز ہوتی ہیں. یاد رکھیں جو آپ کے گھر آئی ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے. اپنی بیٹی کو بھی اتنا نازک نہ بنائیں ٹھک ہے لاڈ لاڈ کی جگہ مگر انہیں گھر سنمبھالنا بھی سکھائیں
گھر لڑکی اپنی سمجھ سے بساتی ہے اور کافی حد تک والدہ کا بھی ہاتھ ہوتا بیٹی کو بسانے اور نہ بسنے دینے میں.
تعلیم حاصل کریں جو آپ کو فائدہ دے
جس سے گھر ہی برباد ہو جائے اس تعلیم سے بچو

اگر تعلیم طلاق کی وجہ ہوتی تو ہم پے فرض نہ ہوتی

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا_ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ (دینی) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا)
صحیح بخاری: 7/1385

اے اللہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرما ہمیں ان جاہلوں میں سے نہ بنا آمین
 

Saleha Choudhary
About the Author: Saleha Choudhary Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.