بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں

کسی بیٹی کی شادی تھی گھر میں گھمسان کا رن تھا۔مگر اس سے پہلے کی جنگ سے کوئی بھی واقف نہیں تھا۔ والد کے کمزور کندھوں نے کس طرح ایک بیٹی کو رخصت کیا، اس وقت انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ واقعی میں بیٹی بوجھ ہوتی ہے، اسے والد پالتا ہے پڑھاتا ہے اسکی ہر خوشی پوری کرتا ہے، مگر اسکی رخصتی اور ایک سنت پوری کرنے کے چکر میں وہ اپنا آپ بھول جاتا ہے۔ بیٹی کو سسرال جانا ہے مگر اسکے سسرال میں ہر چیز اسے دے کر بھیجنی ہے تاکہ کل کو بیٹی کو یہ بات نہ سننی پڑی کہ تم میکے سے لائی ہو کیا ۔ یہ کہانی ہر اس باپ کی ہے جس کے گھر میں جوان بیٹی ہے اور وہ صرف اس جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے اسے کے بالوں میں اترتی سفید چاندی کو دیکھتا ہے۔ اس سے پہلے کی بھی لڑکی پر گزرنے والی عجب کہانی ہے۔ بازار میں بکنے والی کسی شے کی جس طرح پرکھ کی جاتی ہے اس طرح لڑکی کے گھر جا کر اس کی چال، رنگ، اٹھک بیٹھک پر بحث اور سوچ بچار کے بعد اس کے لیے ہاں کا پیغام بھیجا جاتا ہے، اسکی عزت نفس بار بار مجروح کی جاتی ہے۔ یہ بھول جاتے ہیں لوگ کہ انکے اپنے گھر میں بھی ایک بیٹی ہو گی۔ بحرحال اس ایک بازاری سودا کے بعد شروع ہوتا ہے اصل دیوان۔فضول رسموں کا ایسا بازار گرم ہوتا ہے کہ ہر شے ہاتھوں ہاتھ بکنے لگتی ہے، لڑکی کے والد سے اپنی ناجائز خواہشات منوائی جاتی ہیں۔ منگنی، دنوں کی رسم، مایوں کے نام پر ایک الگ قسم کا خرچہ لڑکی کے والد پر تھوپہ جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اعلی شہنشاہیت سے بھرپور آؤ بھگت کی جائے۔ کرنی بھی چاہیئے لڑکے والے جو ٹھہرے۔

ارے ذرا سا کسی چیز میں خلل آ گیا تو کسی کی بیٹی کی عزت کا لحاظ تھوڑی کریں گے۔ جھٹ سے رشتہ توڑیں گے اور بس پھر یہ غائب اور وہ غائب ہو جائیں گے۔ کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر تھوڑی لا رہے ہیں وہ۔ بیٹی اپنے باپ کی ہوتی کے وہ دوسرا ان کے بیٹے کی بس بیوی ہوتی ہے۔ اس کے بہت سے فرائض ہیں مگر اسکے حقوق کہیں نہیں ہیں، سوائے ان حقوق کے جو شوہر والدین سے ڈر ڈر کر پورے کر دے۔

ہاں بات ہو رہی تھی فضول رسموں کی تو پھر شروع ہوتا ہے بستروں عے یہ معاملہ 20،20 بستر بنا کر دیے جاتے ہیں جیسے پہلے ان کے گھرمیں آنے والے مہمان تو فرش پر سوتے تھے اور بہو کے نئے بستر آنے کا انتظار ہو رہا ہوتا ہے۔ ارے چھوڑیں اس بات کو سوچ کر ترس آتا یے کہ مہمان تو رشتہ دار ہوں گے لڑکے کے بھی تو بیچاری لڑکی انکے لیے اپنے میکے سے برتن، بستر، حتی کہ اپنا بیڈ تک بھی لے کر جاَ سونے کے لیے۔ اور لڑکا بیچارا جو ٹھہرا اتنا غیرت مند کہ اپنے سسر کے دیے ہوئے بیڈ پر سو جائے۔ بس نہیں چلتا کہ سسر صاحب سے بیٹی کے ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی حصہ مانگ لیں۔ زیور مرد پرحرام ٹھہرا مگر کوئی بات نہیں خدا نخواستہ مشکل وقت آ گیا تو بیٹی کے ہی کام آئے گا، نا۔ پھر شادی کے دن ساس کو سونے کی بالیاں، نندوں کو مندریاں، سسر کو گھڑی یاانگھوٹی پہنائی جاتی ہے مانا کسی کو رشوت دے رہے ہوں کہ ہماری بیٹی اب آپ کے گھر آ رہی ہے اسکا خیال رکھنا۔ باپ نے جسے لاڈوں سے پالا ہوتا ہے وہی بیٹی اگلے گھر جا کر نوکرانی بن جاتی ہے۔ ہم بھی تو دوہرا معیار رکھتے ہیں نا کہ داماد ساری تنخواہ لا کر بیوی کے ہاتھ میں دے تو تابعدار ہے اور بیٹق اگر تنخواہ میں سے کچھ رقم لا کر بیوی کے ہاتھ پر رکھ دے تو نافرمان ٹھہرایا جاتا ہے۔ بیٹی گھر رہنے آئے تو بسم اﷲ اور بہو میکے جانے کی فرمائش کرے تو طعنے ملتے ہیں۔

بیٹی جب گھر سے وداع ہوتی ہے تو حقدار بدل جاتا ہے۔مگر ہم تو ٹھیکدار بن کے بیٹھ جاتے ہیں۔شادی کا کھانا کیسا تھا کیسا نہیں اس پر تو بعد تک تبصرے ہوتے ہیں۔ولیمہ کی صبح پہلا ناشتہ بیٹی کے گھر سے آئے گا، ورنہ اسے کھانا بھی نہیں ملے گا۔ اپنی پکڑی اونچی رکھنی ہے اور بیچارا بیٹی کا والد سر جھکائے پھرتا رہے۔کبھی غور سے دیکھو اس کے والد کو جس کے جگر کا ٹکرا لے کر جا رہے ہو وہ مرد ذات ہے روتا نہیں ہے سامنے مگر اسکی آنکھوں کی سرخ دھاریاں کبھی پڑھ کر تو دیکھو۔ ان کا کلیجہ پھٹنے کو ہوتا ہے جب وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو کسی اور کے سپرد کرتا ہے۔ ساری زندگی نامحرم سے دور رہنے والے والد کی عزت کو تین بول بول کر کسی انجانے مرد کے ساتھ چل پڑتی ہے یہ سوچے بغیر کہ وہاں کیسے لوگ ہوں گے کیسی انکی سوچ ہو گی۔ خدارا اس لڑکی کا سوچیں جو ساری عمر اس خواہش میں گزار دیتی ہے کہ اسے باپ کی صفت سا شوہر ملے جو اسے اپنے گھر اور دل دونوں کی رانی بنا کر رکھے۔

کبھی لڑکی کو پیار سے بلا کر تو دیکھو وہ کس طرح تمھارے لیے زندگی گزار دے گی۔مگر کبھی کبھار ہم اس امید پر کہ ہمارا بگڑا ہوا بیٹا شادی کے بعد بیوی کے آنے سے سدھر جائے گا کا ارمان لے کر اسکی شادی ایک سلجھی ہوئی لڑکی سے کر دیتے ہیں۔ بعد میں بیٹا تو نہیں سدھرتا الٹا الزام اس لڑکی کے سر آ جاتا ہے کہ کیسی عورت ہو تم ایک مرد کو سیدھا نہیں کر سکی۔ اور اس بیچاری لڑکی کی زندگی خراب ہو جاتی ہے۔ شوہر کی مار پیٹ برداشت کرتی ہے وہ میکے میں کچھ نہیں کہتی کہ والد پریشان ہو جائیں گے۔ مگر وہ بنت حوا ساری عمر کے لیے ایک ایسی دلدل میں پھنس جاتی ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہاں سے نکل بھی آئے تو اس پر لگا اس دلدل کا نشان اسے زندگی کی اگلی خوشیوں کو خوش آمدید نہیں کرنے دیتا۔ خدارا لڑکیوں کو جینے کا حق دیں۔ مردوں کو 4 نکاح کرتے وقت سنت یاد آ جاتی ہے، کسی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کے وقت ہم سنت کیوں بھول جاتے ہیں۔ جہیز لیتے وقت ہمیں اسلام یاد نہیں آتا جبکہ حق مہر مقرر کرتے وقت ہمیں اسلام یاد آ جاتا ہے۔ شادی ہال بند ھوئے ہیں مساجد نہیں مولوی صاحب بھی میسر ہیں۔نکاح مسجدوں میں کرنے کی عادت بنائیں۔ آپ صاحب استطاعت ہیں، کھانا آپ گھر جا کر بھی کھا سکتے ہیں نکاح کو آسان بنائیں، آپ بھی بیٹی والے ہیں، کسی اور کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھ کر گھر لائیں۔

Aleena Arshad
About the Author: Aleena Arshad Read More Articles by Aleena Arshad: 5 Articles with 3680 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.