وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی
تعداد اور خطرات کے پیش نظر قوم سے خطاب کیا اور اس کو قومی جنگ قرار دے کر
لڑنے کا عزم کیا۔ جبکہ عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور حکومت کے
ساتھ مل کر لڑنے کی دعوت دی۔ایک اھم بات جو وزیراعظم نے کی ہے وہ ذخیرہ
اندوزوں اور دواؤں کی عدم دستیابی پر منافع خوروں کو تنبیہ تھی اگرچہ
پاکستان میں یہ تنبیہ یا قدم ماضی میں یا حال میں کامیاب نہیں رہی اسی لیے
اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی ایک طبقہ خوف خدا سے آزاد سینی ٹایزر اور
ماسک کے معاملے میں سرگرم ھے، جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔دکھ اس بات کا
کہ قیامت کے اس سماں بھی ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔کرونا وائرس پیدا
کردہ اور مسلط کردہ کرونا گردی ھے یا ایک وبا ھر دو صورتوں میں جنگ تو لڑنی
ہے جس طرح کہ ھالی وڈ کی فلموں میں کسی آفت کا انسانوں پر حملہ اور کسی سپر
مین یا ھیرو کا مقابلہ اور فتح تھونپی جاتی ہے کرونا وائرس بھی کسی ھیرو کی
تلاش میں ہے وہ ھیرو امریکہ ھو گا یا اسرائیل لیکن خوف سے کوئی تو دنیا کو
نکالے گا۔یہاں پاکستان میں مراد علی شاہ اس وقت ھیرو نظر آ رہے ہیں جبکہ
ایم کیو ایم نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی
یہ قابل مثال ہے جس کے لیے باقی سیاسی اور سماجی تنظیموں کو کام کرنا
چاہیے۔کرونا وائرس بھی دھشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح پاکستان پر نازل ھو
چکا ھے بس فرق اتنا ہے کہ اب" کرونا گرد"جنوب مغربی بارڈر سے آیا ہے جس نے
آتے ہی اب تک سینکڑوں افراد کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کر دیا
ہے۔اور 22 کروڑ کو انجانے خوف میں دھکیل دیا ہے۔اس کرونا وائرس کے خلاف جنگ
کے لیے کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی تفتان بارڈر پر قرنطینہ کے حالات اور
ناقص انتظامات نے ملک کو خوفناک جنگ میں جھونک دیا ہے اب اس سے نکلنے کے
لیے قومی سطح پر ایک طویل جنگ کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔دھشت گردی کی طویل جنگ
بھی ھم پر مسلط ھوئی تھی جسے قوم اور فوج نے لاتعداد قربانیوں سے جیتا ھے
مگر اس میں غریب عوام کو ڈر کم تھا یہاں علاج کی مشکلات اپنی جگہ بھوک اور
افلاس کے ساتھ خوراک کی قلت،تباہ حال معیشت اور بڑے جانی نقصان کا خدشہ ہے
وزیراعظم نے دنیا سے قرضے معاف کرنے کی اپیل کی۔عالمی مالیاتی اداروں نے
بھی جنوب ایشیائی ممالک کے لیے خطرہ قرار دے دیا ھے۔اس پر انتظامات کے ساتھ
ساتھ ایک بھرپور سفارتی جنگ کی بھی ضرورت ہے ھو سکتا ھے کوئی بڑی کامیابی
آپ کے دروازے پر دستک دے رہی ھو اور آپ بے خبر رہ جائیں۔وہ دستک دے کر چلی
جائے گی تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی بھی آپ کے لیے ایک دستک ھے کان دھریں
گے تو کچھ ملے گا۔ورنہ کرونا وائرس جیسا عذاب ھے ھی،پاک فوج نے بھی اس کے
خلاف بھرپور لڑائی کا عزم کیا ھے کہاں لڑنا ہے ایک فیک نیوز کے خلاف،عوامی
شعور کے لیے،غریب عوام کی حفاظت اور سہولت کے لیے لڑنا ھو گا۔کاش کسی بہانے
ھمارے اندر سوک سینس پیدا ھو جائے،صفائی نصف ایمان ہے،کا نظریہ رکھنے والے
اس عمل سے دور کیوں ہیں،قول وفعل میں تضاد کیوں ھے؟ قانون کی پاسداری اور
تفتان بارڈر پر رشوت دے کر یا ائیرپورٹ پر پیسے لےکر بغیر سکریننگ چھوڑنا
کس ایمانی کیفیت اور قومی ذمہ داری کا نام ہے؟ اور وہ بھی اتنے خوف میں، بے
ایمانی آخر کس طرح ھم خدائی غضب سے بچ سکتے ہیں۔دنیا میں ھر روز کرونا
وائرس سے مرنے والوں کی تعداد بڑھی رہی ہے جو روز کے تین سو افراد لقمہ اجل
بن رہے ہیں ،کیا امریکہ کی سپر پاور بے بس ھو گئی یا وہ اس ھائبرڈ جنگ کے
موجد ہیں۔مائیکرو سکوپیک " دھشت گرد" تشکیل دے کر روکنے کا طریقہ بھول گئے
ہیں۔بہرحال ھمیں یہ جنگ لڑنا پڑے گی جانی بھی اور معاشی بھی،عوام احتیاطی
تدابیر سے اور حکومت مضبوط انتظامات سے ھی کرونا گردی یا کرونا وائرس کو
شکست دے سکتی ھے۔
|