حقیقی کہانی سہی معنوں میں سخی دِل انسان…

کہتے ہیں انسان کو اللہ پاك پیسہ دیتا ہے تو انسان اکثر اپنا منہ پھر لیتا ہے اور دینے کے بجائے انسان اور جمع کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کے پاس مزید دولت نہیں' بلکہ دولت میں کمی آجاتی ہے. کچھ اسی طرح سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں دنیا میں. کے جن کے پاس ہوتا تو کچھ بھی نہیں ہے. دینے کو مگر جو بھی ان کے دَر پر آتا ہے خالی ہاتھ نہیں جاتا. ایسے ہی ایک انسان کی ریئل اسٹوری؛ میں لکھنے جا رہا ہوں. جو 2 روز پہلے کی ہے اور میرے ساتھ میرے سامنے کی ہے.

ہمارے گھر کے ساتھ میں ایک مکان ہے. جس میں دو بچے جسمانی اور ذہنی طور پر معذور ہیں. لیکن چل پھر سکتے ہیں. اور كھا پی بھی سکتے ہیں. یہ دونوں بھائی علی اور نومی ہیں ان میں سے میں علی کی بات کررہا ہوں.

سنڈے کا دن تھا میں گھر پر تھا اور حسبے معمول میں اپنی بائیک صاف کر رہا تھا. کہ کھڑکی سے میری والدہ نے مجھے کہا کے یہ سموسے رول والا آرہا ہے. اِس سے کچھ سموسے رول لے لو. یہاں میں بتاتا چلوں کے بازار میں جو سموسے اور رول ہوتے ہیں. ان میں اور اس سموسے والے کے سموسے رول میں زمین آسْمان کا فرق ہوتا ہے.

بازار میں ایک سموسہ دس یا بیس کا ملتا ہے. جب کے یہ غریب انسان سَر پر ایک تھال میں چھوٹتے چھوٹتے سموسے لئیے دس روپے کے آٹھ . سموسے دیتا ہے. لُبِّ لباب یہ کے اِس غریب انسان کے لیے ایک ایک روپے کی بہت اہمیت ہوتی ہے. اور ہونی بھی چائیے کیوں کے نہ دکان. نہ کوئی سواری. نہ کوئی پیسے جیب میں. جو بھی بقری ہوتی ہے. روز اس سے یہ انسان اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پلتا ہے. چلنے کے نام پر پاؤں میں پرانی سی چپل اور سَر پر کمچہ بند کر ایک تھال میں سموسے اور رول بیچتا یہ انسان یقیناً دِل کا غریب نہیں تھا.

میں والدہ کی بات سن کر اس سموسے والے کو اشارہ کیا جو تھوڑے ہی دور تھا. وہاں کسی کو سموسے وغیرہ دے رہا تھا. کچھ ہی منٹوں بعد وہ میرے پاس تھا میں نی کہا بھائی سموسے دینا "چار" اور ساتھ یہ بھی پوچھا کہ بھائی سموسے ہیں کیتانے کے" تو وہ سموسے ولا بولا بھائی دس روپے کے آٹھ. ہیں میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے آپ دے دیں دس کے اور میں گھر سے پلیٹ لے آیا جس وقت میں گھر سے پلیٹ لے کر آیا تو دیکھا علی اس سموسے والے کے رول كھا رہا ہے. یہ دِکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ سموسے والا شاید پریشان ہورہا ہے. پھر سموسے والے نے کہا "یہ بچا وہاں پیچھے بھی میرے پاس آیا تھا. اور میرے رول كھا گیا تھا اور یہاں بھی" میں سمجھا کے مجھے سے کہہ کر اپنا دِل ہلکا کر رہا ھوگا. مگر ایسا نہیں تھا… میں نے سموسے لئیے ساتھ رول بھی. کہ اسی بہانے اِس کی کچھ بقری بھی ہوجائیگی خیر …… یہ سوچ آتے ہی میں نی کہا بھائی یہ میرے پڑوسی ہیں. آپ مجھے بتا دین کیتینے پیسے ہوئے ہیں اِس بچے کے. کیوں کے جانتا وہ بھی تھا کے علی نامی یہ بچہ ذہنی معذور ہے اور جسمانی طور پر بھی واضع نظر آرہا تھا … خیر میرے سوال کے جواب میں اس سموسے والے نے جو جواب دیا تھا وہ سنئیےآپ… "نہیں بیٹا میں نہیں لونگا پیسے بچے تو بچے ہیں نا بچے میرے پاس آتے ہیں اور ایسے ہی كھا جاتے ہیں" میں اس انسان کی شکل دِکھتا رہ گیا تھا. کے کیا کہہ رہا ہے یہ انسان. جس کے گھر کا گزارا ہی یہ سموسے بیچ کرہوتا ہو. ایک ایک پیسے جمع کر کے ہوتا ہو. وہ انسان اتنا سخی دل… سہی کہا ہے کسی نے "کہ اللہ پاك اگر پیسے دے تو ان پیسوں کو خراچ کرنے کا دِل بھی دے …

خیر میں نے اس بچے کے بھی پیسے دئیے رول کے وہ بھی زبردستی. کیوں کے سموسے کی با نسبت رول مانگا تھا…

اللہ پاك سے دعا ہے اللہ پاك اگر پیسے دے ہم لوگوں کو تو دینے کی بھی توفیق نصیب فرماے آمین سمّ آمین.
 

Shoaib Hanif
About the Author: Shoaib Hanif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.