چین میں نوول کورونا وائرس کا مرکز سمجھے جانے والے شہر
ووہان میں مسلسل دو روز سے کوئی ایک بھی نیا مصدقہ مریض سامنے نہیں آیا ہے
جس نے دنیا کو عالمگیر وبا کووڈ۔19 کے خلاف جنگ میں فتح کے لیے ایک نئی
طاقت اور امید فراہم کی ہے۔کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ چین اپنی متحرک
اعلیٰ قیادت ، نظام کی برتری ، عوامی طاقت ، انسانی و تکنیکی وسائل کی
دستیابی اور قومی یکجہتی کے بل بوتے پر اتنی جلدی وبا کے تیزی سے بڑھتے "سیلاب
" کا راستہ روک پائے گا ۔ دس مارچ کو جب چینی صدر شی جن پھنگ نے ووہان کا
دورہ کیا تو اسے کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں چین کے کامیاب دفاع کی
" علامت " قرار دیا گیا۔اس وقت چین کے شدید متاثرہ صوبہ حوبے میں ماسوائے
ووہان شہر ، تمام شہروں اور دیہی علاقوں میں وبا کے خطرے کے درجے کو کم کر
دیا گیا ہے جبکہ ملک بھر میں منظم طور پر معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔اب
چین وبا کی روک تھام و کنٹرول کی سرگرمیوں کو اقتصادی و سماجی ترقی سے ہم
آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اور سال 2020 چونکہ چین بھر سے غربت کا
خاتمے کا سال بھی ہے لہذا اب توجہ "دونوں جنگوں " میں فتح کے حصول پر ہے۔
اس کے برعکس دیگر دنیا میں نوول کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد
میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔تشویشناک بات یہ ہے کہ امریکہ سمیت
یورپی ممالک جیسے ترقی یافتہ معاشرے جہاں یہ توقع کی جاتی ہے کہ صحت عامہ
کے تحفظ اور علاج معالجے کی تمام تر جدید سہولیات کی دستیابی ایک عام سی
بات ہے ،وہاں متاثرہ مریضوں اور شرح اموات میں اضافے نے پوری دنیا کو
پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔چالیس سے زائد یورپی ممالک میں متاثرہ مریضوں
کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔صرف اٹلی میں ہی متاثرہ مریضوں کی
تعداد اکتالیس ہزار سے زائد اور اموات چونتیس سو سے بڑھ چکی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی بات کی جائے تو ایران میں صورتحال انتہائی سنگین ہے۔متاثرہ
مریضوں کی تعداد اٹھارہ ہزار سے زائد اور اموات بارہ سو سے بڑھ چکی
ہیں۔امریکہ جیسے ملک میں تمام تر وسائل کے باوجود مصدقہ مریضوں کی تعداد
ساڑھے تیرہ ہزار سے زائد اور اموات دو سو تک پہنچ چکی ہیں۔پاکستان سمیت
دیگرجنوبی ایشیائی ممالک میں بھی کورونا وائرس کے مریض سامنے آ رہے ہیں اور
اس وقت دنیا کے سبھی آباد خطوں میں کورونا وائرس اپنے پنجے گاڑ چکا ہے ۔اس
صورتحال میں مختلف ممالک میں ہنگامی صورتحال کا نفاز بھی کیا جا چکا ہے اور
طبی علاج معالجے کی فراہمی سمیت طبی سازوسامان کی فراہمی کے لیے بھی
اقدامات جاری ہیں۔
اس صورتحال میں دنیا عالمگیر وبا سے نمٹنے میں چین کے کامیاب تجربات سے
کیسے سیکھ سکتی ہے یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ ڈبلیو ایچ او سمیت دیگر عالمی
اداروں کے پاس بھی چین کا ایک کامیاب ماڈل موجود ہے جس کی روشنی میں بروقت
لازمی اقدامات درکار ہیں۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کورونا وائرس کی روک تھام وکنٹرول کے حوالے
سے دنیا بالخصوص مغربی ممالک کی توپوں کا رخ چین کی جانب تھا ،چین کے
اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کی گئی ، ووہان شہر کے لاک
ڈاون کو "انسانی حقوق" کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ،چین مخالف بیانات تسلسل
سے سامنے آئے اور بجائےاظہار یکجہتی کے ،چین کی کوششوں کو بدنام کرنے کی
کوشش کی گئی۔لیکن جب دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاو کے باعث اسے
عالمگیر وبا قرار دیا گیا تو اُ س وقت دنیا نے چین کے ماڈل کو تاریخی اور
بے مثال قرار دیا۔
اس وقت دنیا میں صورتحال یہ ہے کہ شہروں کا "لاک ڈاون" مختلف ممالک کی
اولین ترجیح ہے۔ووہان اور صوبہ حوبے میں چین کی" اپروچ" ساری یورپی یونین
کے لیے ایک نمونہ بن چکی ہے۔اگر حقائق کے تناظر میں دیکھیں تو دیگر عوامل
کے ساتھ ساتھ اس مرحلے میں " سماجی دوری" ہی وائرس کے مزید پھیلاو کو روکنے
کا کلیدی سبب ہو سکتی ہے۔ فروری میں جب ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے ایک وفد
نے چین کا دورہ کیا تو انہوں نے اپنی حتمی رپورٹ میں انسداد وبا سے متعلق
چین کے اقدامات کو جرات آمیز ، برق رفتار اور جارحانہ قرار دیا جس کے باعث
وائرس کا پھیلاو روکا گیا۔شائد مغربی ممالک کی جانب سے اُس وقت چین کے
اقدامات کو اُتنی اہمیت نہیں دی گئی اور لازمی تیاری نہیں کی جا سکی جس کا
نتیجہ آج سامنے آ رہا ہے۔
چین نے صوبے حوبے کو عارضی لاک ڈاون تو ضرور کیا مگر انسداد وبا کے حوالے
سے درکار تمام وسائل سے مالا مال کر دیا۔ملک بھر سے طبی عملہ صوبہ حوبے اور
ووہان بھیجا گیا ،دنوں میں عارضی اسپتال تعمیر کیے گئے جس کے باعث دیگر
صوبوں میں وائرس کا راستہ مضبوطی سے روک دیا گیا۔یہاں سب سے اہم بات یہ بھی
ہے کہ نوول کورونا وائرس ایسے وقت سامنے آیا جب چین میں جشن بہار کے دوران
کروڑوں لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہے ،ایسے وقت میں اگر چینی حکومت بروقت
اقدامات نہ اٹھاتی تو شائد انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ جنم لے سکتا تھا۔
یہاں بلاشبہ چینی عوام کو بھی داد دینا ہو گی کیونکہ جس یکجہتی ،فرمانبرداری
،دانشمندی اور قربانی کا مظاہرہ اُن کی جانب سے کیا گیا ، تاریخی اعتبار سے
واقعی ایک نایاب مثال ہے۔اس وقت چین ، پاکستان سمیت یورپی ،افریقی اور دیگر
تمام ممالک کے ساتھ اپنے کامیاب تجربات کے تبادلے اور امداد کی فراہمی سے
ایک بڑے ملک کا ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ دنیا کے سبھی ممالک اپنے
عوام کی طاقت اور بھرپورشمولیت سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں بالکل اُسی
طرح فتح سمیٹ سکتے ہیں جس طرح آج چین نے اپنے عوام کے بل بوتے پر کورونا
وائرس کو شکست دی ہے اور اس بڑی اور کٹھن آزمائش میں سرخرو ہوا ہے۔
|