آج جب کہ دنیا بھر میں یوم مزدور
منا یا جا رہا ہے ، میں روبہ زوال کالونی تھل ٹیکسٹائل ملز کے سامنے ایک ٹی
سٹال پر مزدوروں ، محنت کشوں کے جھر مٹ میں گھرا ان کی تنگ و تاریک زندگی
کے متعلق کچھ جاننے کی کو شش کر رہا ہوں ، 1958ء میں پسماندہ علاقوں میں
صنعت و حرفت کو تر قی دینے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی غرض سے اس
وقت کے ایک سرکاری ادارے تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹی ڈی اے)نے پپلاں ضلع
میانوالی ، بھکر اور مظفر آباد ملتان میں ٹیکسٹائل ملز کی ایک چین متعارف
کروائی تھی جن میں ہزاروں افراد کو بھرتی کیا گیا اور اس طرح سے ٹی ڈی اے
کی اس کوشش کی بدولت علاقہ کے مکینوں کو سستا روزگار میسر آیا ، کالونی تھل
ٹیکسٹائل ملز بھکر میں تین شفٹوں میں تقریبا سو لہ ہزار کے لگ بھگ ہنر مند
کا م کرتے تھے ، بعد میں آنے والی حکومتوں کی عدم توجہی ،ملز مالکان کے
جابرانہ رویے اور علاقائی وڈیرہ شاہی سسٹم کی بدولت یہ انڈسٹری تباہی کے
کنارے پہنچ گئی ، پپلا ں ٹیکسٹائل ملز کا تو آج نام و نشان تک مٹ چکا جب کہ
کالونی ٹیکسٹائل ملز مظفر آباد اور کالونی تھل ٹیکسٹائل ملز بھکر بھی اب
تیزی سے زوال کی طرف گامزن ہیں ، سی ٹی ٹی ایم بھکر کی تو اب اینٹیں تک
بھیج دی گئیں اور اب اس میں دو چار یونٹوں پر چند سو ملازمین باقی رہ گئے
ہیں ، اس طرح آج یہ مشہور زما نہ انڈسٹری علاقائی وڈیروں اور خوانین کی بے
رحم سیاست ، ملز مالکان کی سر د مہری کی نذر ہو کر رہ اپنا وجود کھونے کے
قریب جا پہنچی ، آج میں اسی کالونی تھل ٹیکسٹائل ملز کے کھنڈرات کے سامنے
بیٹھا مزدور اور محنت کش کے تلخ ترین ایام زیست پر کچھ لکھنے کی سعی کررہا
ہوں ۔اگر ہم کالونی تھل ٹیکسٹائل ملز اور ملک بھر کے دیگر محنت کشوں کے
متعلق کچھ جاننے کی کوشش کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سر زمین مزدور
طبقے پر ناقابل برداشت حد تک تنگ کر دی گئی ہے ، سوچتا ہوں کہ آخر انہیں
کیوں اس قدر لاچار اور بے بس کر دیا گیا ہے کہ نہ تو وہ اپنے حق کی بات کر
سکتے ہیں اور نہ ہی سر اٹھا کر خدا کی عطاء کر دہ زیست کے ایام ہنسی خوشی
بسر کر سکتے ہیں ، ان کے ذہنوں میں اس وطن کے جابر سر مایہ داروں ، وڈیروں
نے یہ بات نقش کر دی ہے کہ بس انہوں نے چپ چاپ ظلم سہتے ہیں اور اپنی
زبانوں کو قفل لگا کر اپنے خون اور پسینے سے سرمایہ دار اور صنعت کار کی
تجوری بھرتے رہنا ہے ۔ میرے ان محنت کشوں کو نہیں معلوم کہ یہ دھرتی کے رنگ
ڈھنگ تو فقط انہی کے دم قدم سے آباد اور شاد ہیں ، ملک میں معاشرتی اونچ
نیچ ، سماجی انصاف کی عدم فراہمی ، بھوک ، غربت اور محنت کشوں کا استحصال
ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ان غیر مساوی رویوں سے مراعات یافتہ طبقے ،
افسر شاہی ، سر مایہ دار اور وسائل سے محروم لوگوں کے مابین فاصلے تیزی سے
بڑھ رہے ہیں ، جب دھرتی کے ان ہنر مندوں کا استحصال اور اس پر حکمر انوں کی
چشم پوشی دیکھتا ہوں تو زبان پر بے ساختہ نوجوان شاعر سعید آثم کے یہ اشعار
آنے لگتے ہیں ،
قانون کی دہلیز پہ زردار کے ہاتھوں
مزدور کا لٹتا ہوا دھن دیکھ رہا ہوں
اک جشن بپا ہے سرِ محفل ِ اعداء
مغموم سعید اہل وطن دیکھ رہا ہوں
ایک عام محنت کرنے والا شخص ، دیہاڑی دار مزدور اور مل ورکر غربت اور بے
تحاشا مہنگائی کے ہاتھوں مسائل کے گرداب میں پھنس چکا ہے ، آئے روز لوگ
اپنے معصوم بچوں سمیت خود کشیاں کر کے موت کو گلے لگا رہے ہیں مگر اس وطن
کے حکمران ، جاگیردار ، وڈیرے اور سرمایہ دار ہیں کہ کالا دھن سمیٹتے ہی جا
رہے ہیں، ایک مزدور اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے سے قاصر ہے اور
دوسری جانب مراعات یافتہ طبقے کا چال چلن ، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور ان کے
بنک بیلنس کا حجم بڑھ رہا ہے ، مزدور کی اس سے بد تر حالت اور کیا ہوگی کہ
پچھلے دنوں جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم اعلیٰ مفتی محمد نعیم مدظلہ سے
کراچی کے مزدوروں نے فتویٰ لینا چاہا کہ اب ہمیں خود کشی کرنے یا ڈاکے
ڈالنے کی اجازت دی جائے ، امریکی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے مفتی صاحب نے
بتایا کہ مزدوروں کا کہنا تھا کہ قرآن میں آیا ہے کہ بحالت مجبوری سو ر کھا
سکتے ہیں تو ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم مالکان کی گاڑیاں ، موبائل فونز اور
پیسے چور ی کر کے اپنی گزر بسر کریں ، مفتی صاحب نے کہا کہ ان لوگوں کو تو
میں نے ٹال دیا کہ اس طرح سے ملک میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے ، لیکن یہاں
پر حکمرانوں کے لیے سوچ کا مقام ہے کہ جب لوگ اس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر
بربادی ہی منتظر ہوا کر تی ہے۔ بے ضمیر اور زر پرست حکمرانوں کی عدم توجہی
اور ناکام معاشی پالیسیوں کی بدولت غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا
ہے ، جب وطن کا ہنر مند اس واضح تفریق کے مظاہر دیکھتا ہے تو یقیناً اس کی
امید اور آس کی ناﺅ ڈوبنے لگتی ہے ۔ ایک جانب ملز ، فیکٹری اور بھٹہ مالکان
کے ظالمانہ رویے نے ان محنت کشوں کو دو وقت کی روٹی کی خاطر گھٹنے ٹیکنے پر
مجبور کر دیا ہے تو دوسری طرف حکومتی سطح پر جبر اور استبداد اور سفاکیت کی
زند ہ مثال یہ ہے کہ بجلی اور گیس کی بند ش نے ان مزدوروں سے روزگار
تقریباً چھین لیا ہے اور ان کے چولھے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں ، توانائی کا بحران
ہے ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور مسلسل اوپر ہی اٹھ رہا ہے ،
حکمرانوں کی مزدور دشمن سوچ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ لوڈ شیڈنگ کا
دورانیہ بیس گھنٹے تک پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے صرف فیصل آباد میں ڈیڑھ
لاکھ سے زائد پاور لومز ٹھپ ہو چکی ہیں اور درجنوں کارخانوں نے ایک شفٹ بند
کر کے ورکروں کو گھر بھیج دیا ہے ، یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی حالت
تو اس قدر ابتر ہے کہ جسے بیان نہیں کیا جا سکتا ،پاور لومز ورکروں کی
زندگی کی سانسیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں ، مل مالک اور صنعت کار تو و ہ
کردار ہے جس نے مزدور اور محنت کش کا گلہ دبانے کی کوشش ہر دور میں روا
رکھی ہے ، سر مایہ دار ، صنعت کار ، جاگیر دار ، محنت کش کی گردن پر اس بری
طرح سے سوار ہیں کہ صرف اس کی سانس کی ڈوری ہی چلتی محسوس ہوتی ہے، سر کار
کی طرف سے کم ازکم اجرت سات ہزار روپے کے حکمنامے کی ان صنعت کاروں نے بھد
اڑا کے رکھ دی ہے ، سوشل سیکیورٹی ہسپتال اور ڈسپنسریوں میں مزدور داخل تک
نہیں ہو سکتا ، سر کاری چھٹی پر ان ورکروں کو ڈبل اجرت دینے اور ایک سال
سروس کے بعد تنخواہ پر ستر فیصد گریجوایٹی الاﺅنس اور مل مالک کو سالانہ
منافع پر مزدوروں کو بونس دینے کا آرڈ ر ہے جسے ان طاقت ور سر مایہ داروں
نے ناکارہ بنا دیا ہے جس کی بناء پر اس پر کوئی عمل در آمد نہیں ہو پارہا ۔
اگر ملز ورکر اپنے ان جائز حقوق کی خاطر سڑکوں پر آتے ہیں تو سرمایہ دار و
صنعت کار ریاستی اداروں کی سر پرستی حاصل کر کے یا تو مزدور کو جیل کے
پیچھے دھکیل دیتے ہیں یا پھر ان غریب دیہاڑی داروں کے بقایا جات دباکر مل
یا فیکٹری میں ان کا داخلہ ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے ، اس کی
ایک تازہ مثال اگست 2010ءکا وہ واقعہ ہے جب کالونی تھل ٹیکسٹائل ملز کے
سینکڑوں مزدوروں نے تنخواہوں کی بندش پر احتجاج کیا تو مل مالکان نے
علاقائی وڈیروں اور رسہ گیروں کی آشیر باد سے تمام احتجاجی ورکروں کو فارغ
کردیا ہے جو آج بھی اپنے بقایا جات کے حصول کے لیے در در بھٹک رہے ہیں،
میرا قلم اس فورمین کا دکھڑا کیسے بیان کر سکتا ہے جس نے اپنی زندگی کے
بہترین مہہ و سال اس مل کی نذر کر دیے مگر اس کا صلہ یہ دیا گیا ہے کہ وہ
پائی پائی کا محتاج ہو کر ٹھوکریں کھا رہا ہے ، بعینہ ہی اسی قسم کی
صورتحال سے ملک بھر کے دوسرے محنت کش دوچار ہیں ، اس تمام تر ناگفتہ بہ
صورتحال کے باوجود آج کا تاریخ ساز یوم مزدور اس دھرتی کے انہی مظلوم محنت
کشوں ، ہنر مندوں ،دیہاڑی داروں اور بھٹہ مزدوروں کو بالآخر ایک امید اور
آس دلاتا ہے ، یکم مئی 1886ء کو امریکی شہر شکاگو کی سڑکوں کو اپنے سرخ لہو
سے گل رنگ کر نے والے سینکڑوں مزدوروں کا آج کے محنت کش کے نام یہ پیغام ہے
کہ انہیں بھی آخر کار اس ظالم سرمایہ دارانہ سسٹم کے خلاف علم بغاوت بلند
کر کے اپنے حقوق کی جنگ خود لڑنا ہوگی اور انہیں بھو ل کر بھی حکمرانوں کے
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، وسیلہ روزگار سکیم ایسے پروگراموں کے بہکاوے
میں نہیں آنا ہوگا ، سر مایہ داروں کی اس قسم کی پالیسیوں کو آج کے محنت کش
کو بر نارڈ شاہ کے اس قول کے تناظر میں دیکھنا ہو گا کہ ”سرمایہ داروں اور
حکمرانوں کی خیرات اور چندہ سے چلنے والی سوسائٹیاں ہمیشہ دولت مند وں کی
طاقت اور موجودہ سر مایہ درانہ نظام کو قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی
ہیں ، وہ غریب کو صبر و تحمل کی تلقین اور تبلیغ سے انقلابی جذبات کو ٹھنڈا
کیے رکھتی ہیں کہ تاکہ سر مایہ دار بے خوف و خطر محنت کش کا خون چو ستے
رہیں “۔ محنت کش اور سر مایہ دار کی اس کشمکش کو مزدور شاعر تنویر سپرا نے
بڑے خوبصورت اشعار میں پر ودیا ہے جس سے مزدور کے بلند پایہ عزم اور
استقلال کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے ۔
دن کو میں لوہے کی ایک مل میں مزدوری کرتا ہوں
شام کی اپنی نامکمل غزلیں پوری کرتا ہوں
میری گمنامی کا موجب ان لوگوں کی شہرت ہے
اپنے تن من دھن سے جن کی میں مشہوری کرتا ہوں
تم اپنے ان زہر بھرے پیالوں پر جتنے نازاں ہو
میں بھی رسمِ سقراط پر اتنی ہی مغروری کرتا ہوں
اس کی ساری خوشبو سپرا آج بھی مل مالک لے جاتا ہے
لوہے کی ناف سے پیدا جو میں کستوری کرتا ہوں ۔ |