اس کائنات سے پہلے خدا جہنم
تخلیق کر رہا تھا یا ساری کائنات مادے سے بنی ہے مادے سے باہر کچھ نہیں
حرکت کے بغیر مادہ نہیں کچھ نہیں ہے صرف طاقت ہے۔
ارسطو کہتا ہے صورت مخلوق نہیں ہوسکتی۔
ایٹم کی دریافت کے بعد دو ہزارسال تک ہم کو صرف یہ معلوم تھا ساری کائنات
چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنی ہوئی ہے تمام اٹیم ایک جیسے ہوتے ہیں یہ ناقابلِ
تقسیم ہوتے ہیں۔
دو صدی کے بعد ڈالٹن کی ان ایٹم کی مزید تبدیلی کے بارے میں نئی تحقیقات
منظر پر آئیں یہ ایک جیسے نہیں ہوتے 1808 ء مزید آگے کی طرف 1858 ء میں سیل
کی تھیوری آئی۔
موڈرن سائنس نے ایٹم کو بھی توڑ دیا اب ایٹم کے بعد 1932 ء نیوٹراون انسانی
دنیا کا نیا انقلاب اور اب سب کچھ انرجی ہے۔
زندگی کہاں سے آئی ؟
1953 ء کے بعد کلون اور 1988 ء میں DNA اور اب DNA کے پانچ حصہ ہوگئے ہیں۔
چارلس ڈروان کا ارتقاء کے بعد ہنری برگساں کے تغیرِنوع نے نظریاتی ترقی کے
رخ کہاں سے کہاں کردیئے
ڈیکارٹ کا کہنا ہے کہ تمام کائنات پر شک کیا جاسکتا ہے اور اپنی ذات پر
یقین کیونکہ آپ سوچ سکتے ہیں۔
زندگی کہاں سے آئی ؟
پیدائش سے موت تک کے وقت میں کیا کرنا ہے کیا اس کا شعور نہیں ہے؟ شعور
سماج تشکیل دیتا ہے سماج معاشرے کی پہلی اکائی دو انسانوں کا ساتھ زندگی
بسر کرنا اگر فرد۔افراد۔قبیلے۔قوم۔ متحدہ اقوام تک کے معاشرے کا مطالعہ کیا
جائے تو فرد اہم ترین جز ہے افراد کی ہم آہنگی زندگی کا سرمایہ ہوتا ہے یہ
ہم آہنگی ۔افراد۔قبیلے۔قوم۔ متحدہ اقوام تک ہو تو عالمی باشعوری فر د تشکیل
پاسکتا ہے افراد ایسے ادارے تشکیل دیں جو عالمگیر ہوں اکائی متحدہ اقوام
کاہم آہنگ حصہ ہوں۔
زندگی کہاں سے آئی ؟ شعور ہم آہنگی مادی ہوگا ؟ نظریاتی ہوگا ؟ مسلسل
غورفکر جاری رہا تو کل کے انسان سے کل کا انسان آگے ہوگا۔ |