چین کے شہر ووہان سے اٹھنے والی کورونا کی وبا نے پوری
دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔گذشتہ ماہ(فروری2020) سے پاکستان بھی اس
وبا کی لپیٹ میں ہے۔پاکستان میں اس وبا کے ظہور کے بعد سے ملک میں ایک
ہنگامی اور افراتفری کی صورتحال ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہونے والا
ہے۔ ہر طرفی بے چینی و بے یقینی ہے۔
اللہ کی طرف سے مختلف اوقات میں لوگوں اور قوموں پر آزمائشیں آتی ہیں۔
کورونا وائرس اللہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک آزمائش ہے۔ لیکن افسوس ناک صورت
حال یہ ہے کہ ہم اپنی نا اہلی اور بے تدبیری سے اس آزمائش کو عذاب بنانے پر
تُلے بیٹھے ہیں۔
دیکھیے! اللہ تعالیٰ نے بیماری دی ہے تو اس کا علاج اور اس کا پرہیز بھی
بتایا ہے۔ بیماری سے متعلق احتیاط تدابیر بھی سمجھائی ہیں۔ اگر ہم اس وبا
سے متعلق بتائی گئی احتیاطی تدابیر کو اختیار کریں گے توہم بہت جلد اور کم
سے کم نقصان اٹھاتے ہوئے اس آزمائش سے سرخ رُو ہوکر نکل سکتے ہیں۔ اور اگر
ہم احتیاط نہیں کریں گے تو پھر یہ آزمائش ہمارے اوپر خود ساختہ عذاب بن کر
ٹوٹ پڑے گی۔ لیکن یاد رکھیے یہ عذاب اللہ کی جانب سے نہیں ہوگا بلکہ ہماری
ہی شامتِ اعمال سے ہوگا۔
سب سے پہلے اس خود فریبی، اس خوش فہمی سے باہر آجائیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی
کوئی پسندیدہ مخلوق، پسندیدہ قوم ہیں اور ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔یاد رکھیے کہ
اللہ بے شک ہر چیز پر قادر ہے اور دنیا میں اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتّا
بھی نہیں ہل سکتا، لیکن یہ دنیا عالمِ اسباب ہے اور ہم عالمِ اسباب میں جی
رہے ہیں۔ عالمِ اسباب میں ہر کام کو انجام دینے کے لیے ایک منطقی طریقہ
اختیار کرنا ہوگا۔
اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں۔ فرض کریں کہ ہمیں کراچی سے لاہور جانا ہے۔
اب ہم جاء نماز بچھائیں، تسبیحیں گھمائیں اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا
مانگتے رہیں کہ اے اللہ! مجھے لاہور پہنچا دے۔تو ہم لاہور نہیں جاسکتے۔بے
شک اللہ چاہیں تو سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں پلک جھپکتے میں
لاہور نہیں پہنچائیں گے۔بلکہ جب ہم کوشش کریں گے اور کوشش کے ساتھ ساتھ
اللہ سے دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو کامیاب کریں گے اور
ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔ جب تک ہم لاہور جانے کے لیے جہاز، ریل، بس
یا کسی سواری کا انتظام نہیں کریں گے، ہم لاہور نہیں جاسکیں گے۔ یہ ضرور
ہوسکتا ہے کہ اللہ ہمارے لیے سواری اور زادِ راہ کا انتظام کرنے کے لیے کسی
اور کو مقرر کردیں اور وہ ہمارے لیے یہ سارے امور سر انجام دے لیکن ان
دنیاوی امور یا اسباب کے بغیر ہم لاہور نہیں جاسکتے۔
ایک اور مثال سے اس بات کو سمجھیں۔ مخلوق کو رزق پہنچانا اللہ تعالیٰ نے
اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔بھئی رزق کی ذمے داری اللہ تعالیٰ کی ہے یا نہیں؟ہے
نا! لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ آسمان سے من و سلویٰ برس جائے، یا کوئی غیبی
ہاتھ ہمارے آپ کے گھروں پر انواع و اقسام کے کھانے رکھ کر چلا جائے۔ہمارے
حصے کا رزق حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی ہوتی ہے۔ نوکری، مزدوری،
دیہاڑی، کاروبار، بھیک یا کسی کے ٹکڑوں پر پلنا۔ یہ سب اسباب ہیں۔ ان کے
بغیر کسی کو رزق نہیں ملتا۔من و سلویٰ نہیں اترتا، کوئی غیبی ہاتھ کھانا
نہیں پہنچاتا۔
بات سمجھ میں آگئی نا!
تو قارئین!بالکل اسی طرح اس وبا کا معاملہ ہے۔بے شک اللہ تعالیٰ اسے ختم
کرنے پر قادر ہیں، اس کو ختم کرسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے اسباب ہمیں اختیار
کرنے ہوں گے۔ جو جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جارہا ہے، وہ اختیار
کرنی ہوں گی۔ اگر کاروبارِ زندگی معطل کرنے اور سماجی میل جول کم کرنے میں
اس کا حل ہے تو ہمیں یہ کرنا ہوگا۔جب ہم یہ سب کریں گے تو کم سے کم نقصان
اٹھائیں گے۔
اور اگر ہم نے ایسا نہیں کریں گے تو اس صورت میں بھی یہ وبا خو دبخود ختم
ہوجائے گی جس طرح ماضی میں طاعون اور دیگر موذی وبائیں ختم ہوتی تھیں لیکن
بے انتہا تباہی مچا کر، ہزاروں افراد کی جان لے کر، لاکھوں لوگوں کو بے
روزگار کرکے اور پوری معیشت کو تباہ کرکے۔
فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔کیا ہم نے بے انتہا تباہی اور نقصان کی طرف جانا ہے یا
اللہ کی دی ہوئی عقل کو، اللہ ہی کی بنائی ہوئی مخلوق کے مفاد میں استعمال
کرتے ہوئے، اللہ ہی کی اس زمین کو کم سے کم نقصان پہنچاتے ہوئے اس وبا کے
خاتمے کے لیے کوشش کرنی ہے۔
آخری بات!
ایک بار ایک بدّو، پیارے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے ایک مسئلہ
دریافت کیا کہ ”اللہ کے رسول ؐ! میں صحرا میں سفر کرتا ہوں۔جب نماز کا وقت
آئے تو کیا میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اونٹ کو چھوڑ دوں اور نماز ادا
کرلوں؟“پیارے نبی ؐ نے فرمایا کہ نہیں! پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھنا پھر اسے
اللہ کے توکل پر چھوڑنا۔“
جنگ بدر کے موقع پر پیارے نبی ﷺ نے کافروں سے مقابلے کے لیے جتنے لوگ میسر
ہوسکتے تھے، وہ جمع کیے،جو سامان لڑائی کے کام آسکتا تھا، وہ جمع کیا، لشکر
ترتیب دیا، میدانِ جنگ میں پہنچے۔ یہ سارے دنیاوی اسباب کرنے کے بعد پھر
ساری رات اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں۔
غور کیجیے اوپر بیان کی گئی دونوں مثالوں میں ہمارے لیے یہ واضح پیغام ہے
کہ پہلے دستیاب وسائل اور اسباب اختیار کیے جائیں اور اس کے بعد اللہ پر
توکل کیا جائے۔ تو بس احتیاط کیجیے۔اللہ پر توکل کے نام پر خود کو دھوکا مت
دیں اور آزمائش کو عذاب نہ بنائیں۔
|