نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کے مطابق ""ہر عمل کا برابر
مگر مخالف ردعمل ہوتا ہے۔ یہ ردعمل فطری اور ناگزیر ہوتا ہے اور اس کا
اطلاق ہر طرح کے حالات پر ہوتا ہے اور اس پر سب کا اتفاق رائے بھی ہے۔
میرے نقطے کا آغاز ایک سائنسی حوالے سے کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں ہر کس و
ناکس کو یہ باور کرادوں کہ ہم جو بھی کرتے ہیں وہ واپس ہماری طرف پلٹ کے
آتا ہے۔
لفظ لوک ڈاؤن شاید ہمارے لیے نیا ہو اور ہمارا واسطہ اس لفظ سے پرنٹ میڈیا،
الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا سے پڑا ہو۔ کسی سے ہمدردی رکھنا اور اس کے
دکھ درد کو محسوس کرنے میں بہت بڑا فرق ہےاور اس کے لیے آپ کو اپنے آپ کو
دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچنا پڑتا ہے جو آسان نہیں۔ ورنہ یہ صرف لفاظی اور
رسم پوری کرنے جیسی چیز ہے۔اب دنیا کو لفظ لوک ڈاؤن کے حقیقی معنی کا ضرور
ادراک ہوگا کہ ان پر گزر بھی رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے مسلم امہ کو
بمباری، قید بند، ظلم و تشدد اور بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا اور غیر
مسلم بلعموم اور مسلم دنیا بلخصوص خاموش تماشائی بنی رہی۔ہم سب نے اجتماعی
چپ سادھ لی۔کیوں؟ کیونکہ آگ ہمارے چوکھٹ پہ لگی ہی نہیں تھی ہمارے گمان میں۔
اور ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے رہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم اس وقت
ترقی کی اوج ثریا پہ ہیں جہاں ایسی ایجادات ہیں جو نا پہلے کبھی دیکھی اور
نا سنی گئی۔ دوسری طرف ہم اپنی تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں اکی
جراثیم جو مما ثلت رکھتا ہے تاج سے دنیا بھر کے نام نہاد بے تاج بادشاہوں
کے سروں سے ان کے غرور کا تاج اچھال رہا ہے۔اور اس جراثیم نے ترقی کی معراج
پر کھڑے دنیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگھڑا اگر
ہم غور فکر کریں اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور پیارے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق کر لیں جو بلا شبہ تمام مسائل اور امراض
کا واحد حل ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے خاموش رہنے کا خمیازہ بھگتیں اور
توبہ کریں اپنے کوتاہیوں کے لیے اور ہم ہی پلٹ کے اس ذات کی طرف متوجہ ہو
جائیں ۔
|