برصغیر میں خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں جہیز
لینے کا رواج بہت عام ہے۔ کسی لڑکی کی شادی پر لڑکے والے اس سے جہیز کا
مطالبہ کرتے ہیں۔ شادی میں یہ رسم بہت ہی خاص سمجھی جاتی ہے
اور بہت سے لڑکے والے شادی کرنے کے لئے کچھ شرائط اور مطالبات رکھ دیتے ہیں
اور اگر وہ پوری نہ ہوسکیں تو لڑکی والوں کو انکار کر دیتے ہیں۔ مثال کے
طور پر گھر، گاڑی، بڑے چیکس وغیرہ اور ان شرائط کو مدنظر رکھتے وقت انہیں
یہ خیال تک نہیں رہتا کہ یہ جائز بھی ہیں یا نہیں، حلال ہیں یا حرام۔ آجکل
ہائی فیملیز سے لے کر مڈل کلاس فیملیز تک تمام والدین اپنی اولاد کو تعلیم
دلواتے ہیں خاص طور پر لڑکے۔ اب لڑکا تعلیم کا شوق نہ رکھنے کی وجہ سے کم
پڑھا لکھا ہو یا زیادہ پڑھا لکھا ہو دونوں صورتوں میں لڑکے کے گھر والے
جہیز مانگتے ہیں اور نہ ملنے کی صورت میں لڑکی سسرال والوں کے طنز اور
طعنوں کا شکار ہوجاتی ہے۔ جہیز میں صوفہ سیٹ ، الکیڑونک کی مختلف اقسام کی
چیزیں، برتن وغیرہ شامل ہیں۔ والدین کے پاس اتنا پیسا نہ بھی ہو جب بھی وہ
اپنا خون پسینہ ایک کر کے ، قرضوں کے مراحل سے گزر کر اپنی بچی کے لیے جہیز
کی بہت سی اشیاء تیار کرتے ہیں کہ کہیں ان کی بیٹی کو شادی کے بعد پوری
زندگی سسرال والوں سے طعنے سننے کو نہ ملیں۔ لڑکا جب کماتا ہو اور کسی لڑکی
کو نکاح کے بعد اپنے گھر کی عزت بنا کر لا رہا ہو تو وہ اسکی ذمہ داری ہوتی
ہے اور اس صورت میں اس کو چاہیئے کہ وہ جہیز لینے سے منع کردے البتہ والدین
اپنی حیثیت کو دیکھتے ہوئے اپنی خوشی سے جو دینا چاہتے ہیں اور جتنا دینا
چاہتے ہیں اپنی بیٹی کو دے سکتے ہیں۔ جہیز تو دور کی بات لڑکے والے رشتہ طے
کرنے کے بعد مختلف موقعوں پر اپنا کوئی بھی عمل دکھاکر لڑکی والوں کو مجبور
کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کیلئے اتنا ہی کریں۔ مثال کے طور پر عید کے موقع پر
لڑکا اور لڑکی دونوں کو عیدی دی جاتی ہے۔ یہ برّصغیر کی رسموں میں سے ایک
ہے۔ لڑکے کی طرف سے تحفہ چھوٹا ہو یا بڑا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا مگر لڑکی
والے اگر لڑکے کو عید کا ایک چھوٹا سا تحفہ بھی دے دیں تو اس پر باتیں بننا
شروع ہوجاتی ہیں۔ یہی معاملہ سالگرہ اور دوسرے موقعوں پر ہوتا ہے۔ یہ عام
طور پر وہ گھرانے ہیں جو زیادہ پیسے والے ہوتے ہیں جن کا لائف اسٹائل مڈل
کلاس ہی کیوں نہ ہو لیکن لڑکی اور والدین کیلئے ذہنی اذیت بن جاتی ہے۔ عید
الفطر، عیدالاضحی یا سالگرہ کا موقع ہو تحفہ چھوٹا ہی سہی مگر اس میں محبت
اور خلوص شامل ہونا چاہئے۔ اگر آپ کے پاس پیسہ زیادہ ہے تو پھر آپ اپنی
محبت سے جو چاہیں جتنا چاہیں دے سکتے ہیں۔ اور اگر کم پیسے کی مجبوری سے نہ
بھی دیا جائے تو اس کو بڑا مسئلہ بنا کر رشتے میں رکاوٹ یا اس کو ختم نہیں
کرنا چاہئے۔ اب تک کی گئی باتیں زندگی کی حقیقت ہیں اور میرا مشاہدہ،
احساسات بھی کہہ سکتے ہیں۔ جہیز دینے کی یہ رسم پاکستان اور ہندوستان کے
علاوہ کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔ جہیز دراصل ہندووں کی ایک رسم ہے۔ دراصل وہ
وراثت میں لڑکی کو حصہ نہیں دیتے اور اس کی تلافی کرنے کے لئے وہ لڑکی کو
شادی کے موقع پر خوب سارا جہیز دیتے ہیں۔ مگر اسلام نے لڑکی کا وراثت میں
حصہ لازم قرار دیا ہے۔
جہیز کے نام پر ہم لوگوں نے نکاح کو مشکل بنا دیا ہے ۔ اس خوبصورت اور حسین
رشتے کو جہیز کے نام پر اور کئی مطلبات پر لڑکی کے والدین کے لئے ذہنی اذیت
بنا دیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں جہیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت
ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ
کو ان کے نکاح کے موقع پر کچھ ضروری اشیاء دی تھیں۔ لیکن چونکہ حضرت علی ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے اور بچپن سے حضرت
علی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرپرستی میں تھے لہذا وہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے بیٹے کے برابر تھے۔ بچپن سے ان کے تمام اخراجات کی ذمہ داری
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تھی۔ اس لئے نیا گھر بسانے کے لئے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے انہیں سرپرست کے طور پر کچھ ضروری سامان دے دیا۔ وہ سامان جو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ کو دیا تھا وہ روایت
یہاں شامل کرنا چاہونگی: "حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فاطمہ کو جہیز میں ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک چمڑے کا تکیہ
دیا جس میں اذخر گھاس کا بھراو تھا۔"
لیکن اس کے علاوہ تاریخ کی کسی کتاب سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اور صاحبزادیوں کو جہیز دیا ہو۔
کہتے ہیں کہ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو تب ہی سے اس کے لیے
جہیز تیار کرنا شروع کر دینا چاہیے کیونکہ والدین کے ذہن میں ایک خوف پیدا
ہوتا ہے کہ اگر بیٹی کو اچھا اور بہت زیادہ جہیز نہ دیا گیا تو ان کی بیٹی
سسرال والوں کے طنز اور طعنوں کا کہیں نشانہ نا بن جائے۔ اب بات ہوتی ہے
شادی بیاہ میں بہت سی رسوم و رواج اور خوب پیسا خرچ کرنے سے متعلق۔ شادی
بیاہ کے موقع پر مختلف رسوم و رواج سے متعلق مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی
ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی بہت
دھوم دھام سے کرسکیں لیکن زمانے کی دوڑ ، جلن، حسد اور احساس کمتری کا شکار
ہو کر لوگ زیادہ سے زیادہ اچھے فنکش انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے
پیاروں کے احسانات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لڑکی کی شادی میں زیادہ پیسے نہ
ہونے کے باعث لڑکی کے قریبی رشتہ دار چچا، ماموں تایا یہ شادی بیاہ میں
ہونے والی تقاریب کے لیے کچھ رقم ادا کر دیتے ہیں لیکن بدلے میں گھر والے
ساری زندگی کے لئے ان کے احسان مند ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ ہم پر جتنے بھی
احسانات کرے، مہربانیاں کرے وہ مالک کبھی نہیں جتاتا۔ مگر ہم گنہگار انسان
نیکی کرکے کسی نا کسی موقع پر، کسی بھی عمل سے جتا ہی دیتے ہیں۔ اگر لڑکا
لڑکی دونوں کے گھر والوں کے پاس اگر زیادہ پیسہ ہے تو وہ اپنی مرضی سے خرچ
کر سکتے ہیں کیونکہ مہندی اور دیگر رسوم و رواج تو سب ہی کو اچھی لگتی ہیں
اگرچہ یہ دوسری قوموں سے آنے والی رسمیں ہیں لیکن اگر پیسے کی استطاعت
زیادہ نہیں رکھتے تو کم لوگوں کو بلا کر سادگی سے نکاح کر دینا اور ولیمہ
کی تقریب کر دینا بہت خوبصورت بات بھی ہے اور انداز بھی۔ اس میں نا لڑکے
والوں کو کوئی گلہ شکوہ کرنا چاہیے اور نہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کو۔
بلکہ ایک دوسرے کی مجبوری کو سمجھنا چاہئے۔ واضح رہے وہ نکاح زیادہ بابرکت
ہے جس میں کم سے کم بوجھ ہو لہٰذا نمائش اور مقابلے کی دوڑ میں دھوم دھام
سے شادی کرنا اور پیسہ خرچ کرنا مناسب نہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ چلنا ہی
زیادہ عقلمندی ہے چاہے امیر ہی کیوں نہ ہوں۔ جہیز کے معاملے میں گھر والے
اپنی خوشی سے جو کچھ دینا چاہیں یا لڑکی اپنی خوشی سے جو کچھ لے کر جانا
چاہے لے جا سکتی ہے لیکن وہ سب اپنی حیثیت کو دیکھتے ہوئے ہی ہو ۔ مگر ہمیں
اپنی باتوں ، رویوں اور عمل سے مختلف مواقع پر یا نکاح کے موقع پر مختلف
اشیاء، پیسوں یا جہیز کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو
کہتے ہیں کہ ہمیں جہیز نہیں چاہیے۔ خوب پڑھ لکھ کر، اچھا کمانے سے اچھا
لباس پہننے سے، ہاتھ میں اچھی سے اچھی گھڑی پہن کر نہ کوئی لڑکا یا مرد
موڈرن ہوجاتا ہے اور نہ خوب تیار ہو کر، اچھے لباس میں ملبوس، بال کھلے
کوئی لڑکی یا شادی شدہ عورت ماڈرن جاتی ہے۔ یہ صرف فیشن کے لحاظ سے اچھا
ہے۔ ماڈرن اور مہذب وہ انسان ہوتا ہے جس کی دنیا اچھی ہو اس کے اچھے طور
طریقوں، اچھی سوچوں اور خیالات، اور اچھے اخلاق کی وجہ سے اور دین پر عمل
کرکے اپنی زندگی کو اچھا اور آسان بنایا ہو، جو اپنی استطاعت کو دیکھتے
ہوئے خرچ کرتا ہو۔ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس کی تلقین کیجئے۔ اور اپنی
زندگی کے اس خوبصورت رشتے کو آسان بنائیے تب ہی ہم اپنی زندگی کو جنت بنا
سکتے ہیں۔ آئیے ہم سب عہد کرتے ہیں کہ جہیز سے متعلق کوئی رسم کو ہم آئندہ
نہیں اپنائیں گے۔
تحریر: افراح عمران۔
|