بیگم کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے ........

شادی کی 42ویں سالگرہ پر لکھی جانے والی لطیف جذبوں سے آراستہ ایک انمول تحریر

کسی نے کیا خوب کہا ہے صبح ہوتی ہے ‘شام ہوتی ہے ‘عمر یونہی تمام ہوتی ہے ۔ابھی کل کی بات لگتی ہے جب میں دولہا بن کے سیدن شاہ کالونی اپرمال بارات کے ساتھ گیا تھا اور ایک نیک سیرت لڑکی کواپنے ساتھ لے کر واپس آگیا ۔ شادی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ‘ شادی کے بغیر انسان خود کونامکمل تصورکرتا ہے سلیقہ مند زندگی کا سبق عورت کے روپ میں بیگم ہی آکر سیکھاتی ہے ۔ ڈاکٹر عارفہ صبح خاں (جو ایک ممتاز ادیبہ‘ رائٹر اور مصنف ہی نہیں) اعلی درجے کی مزاح نگار بھی ہیں ۔وہ اپنی کتاب "کرکرے کردار " میں لکھتی ہیں کہ بیوی ہر گھر کالازمی آئٹم ہے وہ جگہ گھر نہیں کہلاتی جہاں بیوی نہ ہو ۔ بیوی گھر کا وہ فرد ہے جس سے اکثر گھر جنت اور اکثر گھر جہنم کا نقشہ پیش کرنے لگتے ہیں ۔بیوی وہ ہستی ہے جو ہو تو بندہ دکھی اورنہ ہو تو بہت زیادہ دکھی ہوجاتا ہے ۔دنیا کا ہر شریف شخص اپنی بیوی سے شاکی رہتا ہے ۔

ڈاکٹر عارفہ مزید لکھتی ہیں کہ بیویوں کی بھی کئی قسمیں ہیں ان جھگڑالو بیوی ‘ اکڑفوں بیوی ‘فرمانبردار بیوی ‘ شکی بیوی ‘ گھنی بیوی ‘پھوہڑ بیوی ‘ بیوقوف بیوی سیانی بیوی ‘ شوخ و چنچل بیوی ‘ ذمہ دار بیوی ‘ہتھ چھوٹ بیوی ‘ بیمار بیوی ‘ نخریلی بیوی ‘ چکر باز بیوی ‘‘ سٹریل بیوی ‘ بارعب بیوی ‘ باتونی بیوی ‘افلاطون بیوی وغیرہ۔اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری بیوی میں خامیاں کم‘ خوبیاں زیادہ ہیں ۔ اگر میں اسے سیانی اور دانش مند بیوی کہوں تو زیادہ مناسب رہے گا ‘ جب سے وہ میرے گھر آئی ہے اس نے میرے ذاتی مفادات سے لے کر خاندانی معاملات کو خوب سنبھال رکھا ہے ‘ کئی مرتبہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ میں کسی فنکشن میں جانے سے صاف انکار کردیتا ہوں اس کی وجہ مصروفیات کے علاوہ صحت کی خرابی بھی ہوسکتی ہے ‘ خاندان میں میرا بھرم رکھنے کے لیے وہ نہ صرف فنکشن اٹنڈکرتی ہے بلکہ اپنے خاندان کے سامنے میری ڈھیر ساری خوبیاں بیان کرکے میرا مقام و مرتبے میں مزید بلند کرکے گھر لوٹتی ہے ۔

جب سے ہم دونوں نے بڑھاپے کی دہلیز پرقدم رکھا ہے ‘ شام ڈھلے ہم دونوں اپنی اپنی تکلیفوں کو شیئر کرنا نہیں بھولتے۔بہت عرصہ پہلے سے میرے دونوں گھٹنوں میں شدید درد کااحساس رہتا ہے ‘ دائیں گھٹنے کا آپریشن چھ سال پہلے کروایا تھا وہ تو کسی حد تک بہتر کام کررہا ہے لیکن بائیں گھٹنے میں اکثر و بیشترٹھیس نکلنے لگتی ہیں جو مجھے بے چین کردیتی ہیں ۔جب میں اپنے جسمانی اعضا میں ہونے والے درد کی داستان بیگم کوسناتا ہوں تووہ دھیمے لہجے میں کہتی ہے تکلفیں اور دردیں تومجھے بھی کافی ہوتی ہیں لیکن میں برداشت کرلیتی ہوں ‘ آپ کی طر ح شور نہیں مچاتی ۔ آپ تو معمولی سی بات پر بھی آسمان سرپر اٹھا لیتے ہیں ۔مجھے اس کی بات پر غصہ بھی آجاتا ہے پھر یہ سمجھ کر میں خاموش ہوجاتا ہوں کہ وہ ٹھیک ہی کہتی ہے ‘ مجھے سریلی آواز میں کچھ نہ کچھ گنگنانے کا شوق تو بچپن سے ہی ہے ‘ بڑھاپے میں یہی شوق اپنے پوتے پوتیوں کے بارے میں سریلی تانیں اکثر چھڑتی رہتی ہیں ۔ کبھی میری زبان سے "او لٹل مین"تو کبھی "عمر پیارے " ‘ پیاری فریسہ کی آوازیں گھر کے درو دیوار میں گونجتی رہتی ہیں ۔جب میں اپنی دھن میں کوئی راگ الاپ رہا ہوتا ہوں تو بیگم میرا چہرا دیکھ رہی ہوتی ہے اس کے باوجود کہ وہ زبان سے کچھ نہیں کہتی لیکن اس کی آنکھیں وہ سب کچھ بیان کردیتی ہیں‘ جو اس کے دل میں ہوتا ہے ۔ ایک دن مذاق میں کہنے لگی آپ کی آواز بہت سریلی ہے اگر آپ پکوڑوں کی ریڑھی لگا لیں تو پکوڑے بہت بکیں گے۔

ماشاء اﷲ 42سال کے عرصے میں بیگم پہلے بیوی بنی ‘ پھر ماں بنی ‘پھر ساس پھرنانی اور اب دادی بھی بن چکی ہے ۔سب سے پہلے میں بیوی کے کردار پر کچھ روشنی ڈالتا چلوں ۔6اپریل 1978ء کو جب عابدہ بیگم میری زندگی میں داخل ہوئیں تو اس وقت میرے اوران کے خاندان کے رسم و رواج میں ایک وسیع خلیج حائل تھی ‘ ہمارے گھر کے باہر ایک بھینس اور کٹی بندھی ہوئی تھی اور تمام کاتمام کلچر پنجابی تھا جبکہ میرے سسرالی زبان اردو اور رہن سہن ہندوستانی تھا ‘ سب سے اہم بات تو یہ تھی کہ صوفی خاندان کی تمام بیٹیاں اردو سپکینگ گھرانوں میں بیاہی گئی تھیں۔ صرف عابدہ کو پنجابی گھرانے میں بیاہ گیا تھا ‘ یہ فیصلہ بے شک مشکل تھالیکن میرے سسر صوفی بندے حسن خان کو میری سرکاری ملازمت پسند آگئی ‘کیونکہ اس وقت میں لوکل گورنمنٹ کے ذیلی ادارے تعلیم بالغاں میں بطور سٹینو گرافر ساتویں گریڈ میں ملازم تھا۔ پرانے وقتوں میں رشتے ناطے جوڑتے وقت یہی دیکھا جاتا تھا کہ لڑکا سرکاری ملازم ہونا چاہیئے تاکہ مہینے بعد تنخواہ یقینی طور پر مل جائے ۔یہی خوبی میری سسر کو بھی بہاگئی اور گھرکے تمام افراد کی مخالفت کے باوجود مجھے داماد کی حیثیت سے انہوں نے قبول کرلیاگیا ۔عابدہ بیگم جب میرے گھر پہنچی تو یکسر مختلف ماحول دیکھ کر یقینا پریشان تو ہوئی ہوں گی لیکن بہت جلد اس نے خود کو ایڈجسٹ کرلیا۔ اس وقت مجھے ملازمت کے علاوہ کرکٹ کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا ‘جبکہ ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر ایف اے کرنے کی تیاری بھی کی جارہی تھی اس مقصد کے لیے اچھرہ لاہور میں کریسنٹ کالج میں شام کی شفٹ میں داخلہ بھی لے رکھا تھا ‘ دفتر سے واپس آتے ہی فورٹریس سٹیڈیم کرکٹ کھیلنے چلاجاتا پھر واپسی پر کریسنٹ کالج جا پہنچتا جہاں سے رات گیارہ بجے واپسی ہوتی ۔میری آنیاں جانیاں دیکھ کر بیگم اصرار کرتی کہ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ گھومو پھروں لیکن آپ کی زندگی تو مشین بن کر رہ گئی ہے ۔جوانی میں جب تمام انسانی اعضا حکم کی تعمیل میں مصروف عمل ہوتے ہیں اس وقت بیوی کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی لیکن جب انسانی اعضا بار ی باری ساتھ چھوڑنا شروع ہوتے ہیں تو بیوی کی ایک ایک بات پر غور کرنا ضروری ہوجاتاہے بلکہ اس کی قدرو قیمت میں حددرجہ اضافہ ہوتا جاتاہے ۔بہرکیف اپریل 1978سے لے کر نومبر 1984ء تک ہم والدین کے ساتھ رہے پھر مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں چار مرلے کاایک پلاٹ 28 ہزار روپے میں خرید لیا اور اس پر مکان بنانے کا مشکل ترین مرحلہ شروع ہوگیا ۔مکہ کالونی میں شفٹ ہونے کے بعد میری زندگی کے معمولات یکسر تبدیل ہوگئے ۔ملازمت سے اڑھائی بجے چھٹی ہوجاتی تھی پھر وہاں سے میں ایوان ادب اردو بازار جزوقتی ملازمت کے لیے چلاجاتا‘ جہاں سے رات آٹھ نو بجے واپسی ہوتی ۔چھٹی کا ایک دن ملتا وہ بھی گھر کے بے شمار مسائل کو حل کرنے میں ہی صرف ہو جاتا۔یہاں مکان کی تعمیر کا جو سلسلہ1984میں شروع ہوا تھا وہ 1995ء تک ختم ہوا ‘ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ والدین سے علیحدگی کے بعد زندگی ایک صدی پیچھے جاچکی تھی‘مالی وسائل نہ ہونے کی بناپر قدم قدم پر مشکلات حائل ہوتیں ‘ چونکہ ہر لمحے بیوی کی حیثیت سے عابدہ بیگم کا تعاون مجھے حاصل تھا ‘ اگر کھانے کو کچھ نہ ملتا تو ہم دونوں ہی بھوکے سو جاتے ‘ اگر پینے کا پانی میسرنہ آتا تو پڑوسیوں کے ہینڈ پمپ سے پانی حاصل کرکے گزارا کرلیا جاتا بلکہ ابتدائی کئی مہینوں تک ہم پڑوسیوں سے ہی بجلی کا کنکشن لے کر اپنے گھر میں اجالا کرتے رہے ‘ ٹی وی موجود نہ ہونے کی بناپر سرے شام ہی سو جاتے ‘ گویا زندگی کے تمام ذائقے اختتام پذیر ہوچکے تھے ‘ جہاں روٹی بمشکل ملتی ہو وہاں پھل کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا ۔ہمارے گھر کے سامنے ایک حکیم صاحب اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے ‘وہ شام کو اپنے ہر بچے کے لیے کولڈڈرنکس اور پھلوں سے بھرا ہوا تھیلا لاتے اور پھل کھانے کے بعد چھلکے ہمارے گھر کے سامنے پھینک دیتے ۔جنہیں دیکھ کر ہم ترسا کرتے تھے کہ کبھی نہ کبھی تو ہمارا ہاتھ بھی ہلکا ہوگا اور ہم بھی پھل کھانے لگیں گے لیکن والدین سے علیحدگی کے بعد ایک لمبا عرصہ پیٹ پر پتھر باندھ کر ہمیں گزارنا پڑا ۔ آج جب اﷲ تعالی نے زندگی کی ہر نعمت ہمیں عطا کردی ہے ‘بچے بڑے ہوکرجاب کرنے لگے ہیں تو زندگی کی تمام مشکلیں آسانیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ اس عنایت پر اﷲ تعالی کا جتنا شکر ادا کیاجائے کم ہے ۔ مختصرا ایک بات یہاں میں کہنا چاہتا ہوں کہ آسانیاں زندگی میں ضرور آتی ہیں لیکن مشکلات سے گزرکے ۔ عابدہ بیگم نے بحیثیت بیوی کے‘ اپنے بہترین کردار سے میرے خاندان کی بنیادوں کو کچھ اس طرح استوار کیاہے کہ اپنی اپنی جگہ گھر کے تمام افراد خوش و خرم نظر آتے ہیں ۔اسی لیے کہاجاتاہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔

کامیاب بیوی کے بعد عابدہ کا کردار ایک ماں کابھی تھا ‘ میں تو صبح گھر سے نکلتا اور شام ڈھلے واپس پہنچتا لیکن اس دوران دو بیٹوں اورایک بیٹی کی تربیت ‘ تعلیم اور صحت کا خیال رکھنا ایک ماں کی حیثیت سے عابدہ ہی کا فرض تھا ۔الحمدﷲ میری بیٹی تسلیم گرایجویشن کرکے شادی کے بعد اپنے گھر میں خوش و خرم ہے ‘ میرا بڑا بیٹا ( محمد شاہد اسلم لودھی ) اس وقت روشن پیکجز پرائیویٹ لیمٹڈ میں آڈٹ آفیسر کی حیثیت سے ملازم ہے جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا (محمد زاہد اسلم لودھی ) بنک آف پنجاب کی کاہنہ نو برانچ میں گریڈ تھری آفیسر ہے ‘ اس کے باوجود کہ مجھے ریٹائرمنٹ کے بعدایک پیسہ بھی پنشن نہیں ملتی لیکن میرے بچوں نے گھرکو مکمل طور پر اپنے کاندھے پر اٹھا رکھاہے جو وقتافوقتا میری مالی مدد بھی کر دیتے ہیں جس سے زندگی کے آخری ایام کچھ آسانی سے گزر تے جارہے ہیں ۔یہ سب کچھ عابدہ بیگم کے ماں کے حوالے سے کامیاب کردار کاثمرہے۔

ماں کے بعد عابدہ بیگم کا کردار ایک ساس کے روپ میں ابھر کر اس وقت سامنے آیا جب بیٹی تسلیم کی شادی حافظ تاج محمود سے انجام پائی ۔ہمارے گھرانوں میں داماد کی عزت و احترام ‘ خاطر و مدارت باقی تمام رشتے داروں سے زیادہ کی جاتی ہے ‘ یہی کردار آجکل میری بیگم بخوبی ادا کررہی ہے جونہی داماد کے گھر آنے کی خبر ملتی ہے تو فورا میرے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر کبھی قصائی کی دکان سے قیمہ بنوانے لگتی ہے تو کبھی چکن شاپ سے مرغ کا گوشت ‘ جبکہ پرچون کی دکان سے کھانوں کو مزے دار بنانے کے مصالے بھی خریدنا نہیں بھولتی ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب داماد حافظ تاج محمود ہمارے گھر آتے ہیں تو ہماری بھی موجیں ہوجاتی ہیں ۔لیکن مہینے کا طے شدہ بجٹ یقینی طورپر اپ سیٹ ہوجاتاہے ۔بیٹی ( تسلیم ) کی محبت تو ہر ماں کی طرح اس کے خون میں رچی بسی ہے‘ بیگم کو اس وقت تک سکون نہیں ملتا جب تک وہ دن میں ایک بار اس سے بات نہ کرلے ۔خدانخواستہ اگر بیٹی کی طبیعت خراب ہوجائے یا کوئی اور مسئلہ پیدا ہوجائے تو بیٹی سے زیادہ ماں پریشان ہوجاتی ہے ‘جب وہ پریشان ہوتی ہے تو لامحالہ طور پر میں بھی گرفت میں آجاتا ہوں پھر ہم دونوں اکٹھے ہوکر بیٹی کی حفاظت ‘ سلامتی اور صحت کے لیے دعا کرتے ہیں ۔

جب بیٹی تسلیم کے گھردو بیٹوں( حاشر محمود اور عبدالرحمن) کی پیدائش ہوئی تو میری بیگم ‘ نانی کے مرتبے پر بھی فائز ہوچکی ہے ‘ اپنے دونوں نواسوں کی محبت بلاشبہ اس کے خون میں رچی بسی ہے کیونکہ حاشر اور عبدالرحمن کی رگوں میں ہماری بیٹی کا ہی خون گردش کررہا ہے ‘ بیٹی کی مناسبت سے ہی نواسے بھی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں ۔

عام طور پر ہمارے معاشرے میں دادی کاکردارتھوڑا سخت ہوتا ہے جس کے بغیرگھر میں گرگراہٹ پیدا نہیں ہوتی ۔نانی کے مقابلے میں دادی زیادہ نمکین ہوتی ہے وہ لاڈ پیار سے زیادہ رعب اور دبدبے سے بات منوانے کی قائل ہوتی ہے۔کہایہ جاتا ہے کہ دادی کی دوہی قسمیں ہوتی ہیں ایک صدقے واری جانے والی تو دوسری ڈانٹ ڈپٹ والی دادی ۔ میری بیگم رعب دبدبہ والی دادی ہے ‘ پانچ پوتے پوتیاں جو کسی سے بھی نہیں ڈرتے ‘صرف دادی کی ڈانٹ سے دب کر بیٹھ جاتے ہیں ۔دادا کی حیثیت سے میں بہت نرم دل واقع ہوا ہوں ۔ شرمین فاطمہ (جسے میں لاکھوں میں ایک کہتا ہوں ) رماسہ شاہد ‘ محمد موسف لودھی ‘ محمد عمر زاہدلودھی اور فریسہ فاطمہ ۔یہ پانچوں ہی میری محبتوں اور چاہتوں کامرکز ہیں میں ان کی خوشنودی کی خاطر ہر وہ چیز خرید کر لاتاہوں جوانہیں پسند ہوتی ہے ‘ سٹیل کی الماری میرے ان پوتے پوتیوں کے لیے طلسماتی الماری کا روپ دھار چکی ہے جس سے ان کے لیے رنگ برنگی کھانے پینے کی چیزیں نکلتی ہیں ۔پیار تو مجھے تمام پوتے پوتیوں سے یکساں ہے لیکن جو بچہ میری نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے وہ مجھے زیادہ یاد آتا ہے ۔ان معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پورا کرکے مجھے بھی بے حد خوشی ہوتی ہے جب یہ بچے ضد کرکے مجھے ستاتے ہیں تو میں فورا ان کی دادی کو طلب کرکے کیس اس کے حوالے کردیتا ہوں جب دادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو تمام بچے چپ چاپ اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ دادی کی حیثیت سے عابدہ بیگم کا رعب پوتے پوتیوں پر بہت خوب ہے ۔

اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ گھر کی سب سے سمجھ دارخاتون کاکرداراب میری اہلیہ ).عابدہ بیگم ) کے پاس ہی ہے جو گھر کی ذمہ داریوں کو کماحقہ سنبھال بھی رہی ہے ور پورا بھی کررہی ہے ۔ مجھے اس لیے فکر نہیں ہوتی کہ وہ ہر کام کوکرنے کا بہترین سلیقہ اورطریقہ رکھتی ہیں ۔کس رشتے کو کتنی اہمیت دینی ہے یہ سب کچھ اسے زبانی یاد ہے۔ میں تو بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر صرف نماز پڑھنے اورلکھنے لکھانے کے سوا اب کچھ نہیں کرسکتا ۔

اس کو میری زندگی میں آئے ہوئے 42سال ہوچلے ہیں ۔جوانی میں قدم بہ قدم ساتھ چلنے والے میاں بیوی اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں ‘اب زندگی کا ساتھ اور کتنا چلتا ہے اسکے بارے میں تو کچھ علم نہیں ۔ میں نے اسے ایک مضبوط خیالات کی حامل خاتون کی حیثیت سے دیکھاہے لیکن میرا دل ہمیشہ وسوسوں کا شکار ہی رہتاہے اس لیے رب العزت سے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے جدا نہ ہو ‘میں ہی پہلے اس سے جدا ہوجاؤں ..................
کیونکہ اس کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.