دنیا میں آتے ہی بچے کو سب سے پہلے جس ہستی کے ساتھ
سابقہ پیش آتا ہے، وہ اس کی ماں ہوتی ہے۔ گویا اس کا پہلا مدرسہ ماں کی
محبت بھری گود ہے جہاں اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ ماہرین تعلیم
کی یہ متفقہ رائے ہے کہ بچہ پیدائش کے فوراً بعد علم و ادب کے پھول چننا
شروع کر دیتا ہے۔،لہٰذا پہلے ہی دن سے بچے کی صحیح تعلیم و تربیت کا انتظام
ہونا چاہیے۔ اگر معلم اول ماں کی شفقت بھری گود میں صحیح تعلیم و تربیت کے
جوہر موجود ہوں تو بچہ ضرور اس مقصد عظیم کا شیدائی بن جائے گا جس کے لیے
خالق کائنات نے اسے دنیا میں بھیجا ہے لیکن اگر ماں کی گود جوہر تربیت سے
خالی ہو تو زمانے کا کوئی ارسطو بھی بچے کو ان جواہرات سے مالا مال نہیں کر
سکتا جو اس کی تخلیق کے مقاصد ہیں۔یہی وہ گود ہے جس کی خودی سے حسینؓ پروان
چڑھتے ہیں جو باطل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اپنے خون ِجگر سے حق کی قندیلیں
روشن کر کے روشنی کے مینار نصب کر جاتے ہیں تاکہ آنے والے قافلے ان کی
روشنی سے اپنی مسافت طے کرتے چلے جائیں۔ یہی وہ گود جہاں سے طارق بن زیاد
تربیت پاکر
ـــہرـ’’ملکملکماستملکخدائےماست‘‘کاترانہبلندکرکےاندلسپراسلامکاجھنڈاگاڑدیتاہے۔یہوہ
گود ہے جہاں سے تربیت پا کر محمد بن قاسم ہزاروں میل بحری سفر کر کے سندھ
کو باب الاسلام بنانے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔یہی وہ گود ہے جہاں سے
تربیت حاصل کر کے امام مالک ؒ اٹھتے ہیں اور عباسی خلیفہ کے غلط قانون کو
چیلنج کرتے ہیں اور اپنے بازؤں کی قربانی پیش کرتے ہیں۔
ا سی سے امام ابو حنیفہؒ جنم لیتے ہیں جوجیل کی کال کوٹھڑی میں اپنی جان کا
ہدیہ پیش کرتے ہیں مگر شریعتِ مصطفی کو غلط کار حکمرانوں کا کھلونا بننے سے
صاف انکار کر دیتے ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ اٹھارہ برس کوڑے کھاتے ہیں مگر
قرآن کریم کو بازیچۂ اطفال بنانے سے ہمیشہ کے لیے راستہ بند کر دیتے ہیں۔
الغرض ایک دو نہیں تاریخ عالم میں ہمیں ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جنھوں
نے ایک عالم کی کایا پلٹ کر رکھ دی ۔ ایسے پاکباز نفوس اٹھے جنھوں نے ایک
عالم کو نجاستوں سے پاک کر ڈالا۔ ایسے حکمران پیدا ہوئے جن کاوجود بزمِ
عالم کے لیے ظل ِسبحانی اور رحمت ِیزدانی ثابت ہوا۔وہ فاتح ابھرے جنھوں نے
جہا ں کشائی کے ساتھ ساتھ قلوب و اذہان بھی فتح کر ڈالے۔ وہ قانون ساز وجود
میں آ گئے جن کے قوانین نے دنیا میں رحمت ِحق کے تخت بچھا دیے، وہ محدث
اور فقیہ پیدا ہوئے جنھوں نے علم کی ایسی شمعیں روشن کیں جو رہتی دنیا تک
کے لیے اکتسابِ نور کا باعث بنے ۔یہی وجہ ہے کہ اس حکمت کے پیش نظر اسلام
نے اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد سب سے زیادہ زور والدین خصوصاً والدہ کے ساتھ
حسن سلوک پر دیا ہے۔
یہ بات بھی نہایت قابل توجہ ہے کہ انسان کو انسانیت دینے اور اس کو حقوق و
فرائض سے بہرہ ور کر نے اور ا سے انسانیت سے گہرا رشتہ رکھنے کے قابل بنانے
کے لیے اور پھر زندگی میں اپنے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دینے کے لیے علم
و آگہی اور ضمیر کا ایسا نور بھی ضروری ہے جو جذبات اور خواہشات کے ہجوم
اور مفاد پرستی کے ہنگاموں میں حقیقی معنوں میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے
سکے۔یہ ضمیر کا نور بچپن میں ماں باپ اور شعور کی عمر میں پہنچنے کے بعد
استاد کو بنایا گیا ہے۔ اسی لیے استاد کو دوسرا باپ بھی کہا گیا ہے۔پہلا
باپ اگروجود میں آنے کا باعث ہے تو دوسرا باپ مقصد ِ وجود اور علم و بصیرت
کو پانے کا ذریعہ ہے۔
استاد کا دامن ِ تربیت وہ نازک مقام ہے جہاں قوموں کی قسمتیں بنتی اور
بگڑتی ہیں۔ جہاں کی لغزشیں زندگی کی شکستوں کا سبب اور جہاں کا ثبات تمام
کامیابیوں کاپیش خیمہ ہوتاہے۔ مدرسے کی پگڈنڈی ہی وہ خطرناک راستہ ہے جہاں
سادہ لوح بچہ استاد کے تعاون کا سب سے زیادہ محتاج ہوتا ہے۔
اس بات سے آخر کون انکار کر سکتا ہے کہ انسانی معراج کا اصل ہیرو استاد ہی
ہے۔استاد ہی قوموں کو بناتا اور استاد ہی بگاڑتا ہے۔ استاد ہی صالح انقلاب
برپا کرتا ہے۔ استاد ہی قوموں کوزندگی بخش حرارت عطا کرتا ہے۔استاد کا
دامنِ شفقت بہاروں کا مسکن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے عروج و اقبال کی
داستانیں شروع ہوتی ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ستاروں پر کمندیں ڈالنے
والے نوجوان پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وہ جگہ جہاں زندگی اور موت کے بیع ناموں پر
دستخط ہوتے ہیں۔ گویا استاد ہی وہ محور ہے جس کے گردا گرد قوموں کی قسمتیں
گردش کرتی ہیں۔ اسی لیے استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ اینٹ اور پتھر سے
عمارتیں بنانا آسان کام ہے لیکن انسانی اخلاق و سیرت کی تعمیر جوئے شیر
لانے کے مترادف ہے۔ اس عمارت میں جگر کے ٹکڑے پیوست کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا
ملک و قوم سے سچی محبت اورصحیح اسلامی جذبہ ابھارنا استاد کا سب سے بڑا کام
ہے۔اگر استاد نے ان مقاصد کی تکمیل کر لی تو یہ قوم پر اس کا بہٹ بڑا احسان
ہو گا ۔
استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کاکردار
انتہائی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقامیں استاد کے
کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ ابتدائے افرینش سے نظام تعلیم میں
استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی
فلاح و بہبود ،جذبۂ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے
قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن
رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑپودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا
ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور
معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے
علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح
اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے
استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ؐ
کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ؐ نے انمابعثت معلما(مجھے
معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیاتک عزت و توقیر کے
اعلی منصب پر فائز کردیا ہے۔ اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلیٰ
و ارفع ہے۔ استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا
درجہ عطا کیا ہے۔آپؐ نے فرمایا:انماانا لکم بمنزل الوالد،اعلمکم(میں
تمہارے لیے بمنزلہِ والد ہوں،تمھیں تعلیم دیتا ہوں)۔ امیر المومنین حضرت
عمرؓسے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ
کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے۔آپؓ نے فرمایا:’’کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔
استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لیے بے شک عظیم اور محسن ہے۔باب العلم
خلیفۂ چہارم حضرت علیؓ کا قول استاد کی عظمت کو اجاگرکرتا ہے:’’جس نے مجھے
ایک حرف بھی بتا یا میں اس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے تو مجھے بیچے ،آزاد کرے
یا غلام بنائے رکھے‘‘۔
شاعر مشرق مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال معلم کی عظمت یو ں بیان کرتے ہیں:
’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو
ملک کی خدمت کے قابل بناناانھی کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت
اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی
کارگزاری ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام
قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر
قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے‘‘۔
معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے
ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد
کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لیے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت
رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔باپ بچے کو جہاں اپنی
انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے
کی تلقین کرتا ہے۔سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس
درجہ تعظیم کرتا ہے۔سکندر اعظم نے کہا کہ اس کے ماں باپ اسے آسمانوں سے
زمین پر لے کے آئے ہیں جب کہ استاد نے اس کو زمین سے آسمانوں کی بلندیوں
تک پہنچادیا ہے۔بطلیموس استاد کی شان یوں بیان کرتاہے: ’’استاد سے ایک
گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے‘‘۔
استاد کا کام صرف بچوں کو تعلیم دینا نہیں بلکہ ان کی تربیت کرنا بھی ہے۔
آج کل استاد بچوں کو تربیت نہیں دیتے، صرف تعلیم دیتے ہیں۔ تعلیم کمرشلائز
ہونے کے باعث بچوں میں اخلاقی تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ایک اچھا استاد
وہی ہے جو خود انسانیت سے محبت کرتا ہو اور بچوں میں انسانیت سے محبت کا
جذبہ بھی پیدا کر سکے۔
استاد کا کام افراد سازی ہے۔ یہ نہایت اہم اور ذمہ د اری کا کام ہے اس لیے
استاد کو معاشرے میں اس کا جائز مقام فراہم کرنا ضروری ہے۔ضروری ہے کہ
معاشرہ نہ صرف استادکو اعلیٰ اور نمایا ں مقام فراہم کرے بلکہ اس کے ادب
اور احترام کو بھی ہر دم ملحوظ خاطر رکھے۔ہر معاشرے اور مذہب میں استاد کو
ملنے والی اہمیت اساتذہ سے خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا
تقاضا کرتی ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ سے ان کے عزیز شاگرد حضرت امام یوسف نے
پوچھا کہ ’’ استاد کیسا ہوتا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’استاد جب بچوں کو پڑھا
رہا ہوتو غور سے دیکھو ،اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے
تو استاد ہے، اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں
ہے۔‘‘امام اعظم کے اس قول کی روشنی میں اگر اساتذہ کو پرکھا جائے تو معاشرے
میں مادیت پرستی کا غلبہ ہمیں واضح نظر آئے گا۔استاد معاشرے میں اخلاقی
اقدار کو فروغ دینے والا ہوتا ہے لیکن صد افسوس کہ آج یہ پیشہ( سوائے چند
مستثنیات کے) اپنی عظمت اور وقار کو تقریبا کھو چکا ہے۔پیشۂ تدریس آج صرف
ایک جاب (نوکری)، اسکیل (تنخواہ) اور ترقی کی حد تک محدود ہوچکا ہے۔ استاد
اور شاگرد کامقدس رشتہ کھو گیا ہے۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ اسی قوم کو عروج
اور ترقی نصیب ہوتی ہے جو اپنے اساتذہ کی قدر و منزلت کرتی ہے۔
مشہور پاکستانی ادیب ،دانشور اور ماہر تعلیم جناب اشفاق احمد مرحوم جب اٹلی
میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے،تو ایک بار ٹریفک قانون کی خلاف
ورزی میں ان کا چالان ہو گیا۔اپنی مصروفیت کی بنا پر جب وہ چالان ادانہ ہو
سکا تب ان کو چالان کی عدم ادائیگی اور عدم حاضری کے سبب عدالت میں پیش
ہونے کے لیے کہا گیا۔جج نے چالان کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ دریافت کی تو
اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں اور اپنی تدریسی سرگرمیوں کی وجہ
سے چالان کی بروقت ادائیگی سے قاصر رہے۔ جج کو یہ پتا چلا کہ وہ ایک ٹیچر
ہیں تو وہ اپنی کرسی سے احتراما کھڑا ہو گیا اور حیرت و استعجاب سے کہنے
لگا !۔۔Court the in teacher A ( ایک استاد عدالت میں)یہ کہتے ہوئے ان کا
چالان معاف کردیا۔ اٹلی میں بھی ہمارے وطن عزیز کی طرح اساتذہ کی تنخواہیں
پرکشش نہیں ہیں لیکن وہاں آج بھی تمام جج، بیوروکریٹس،
تاجر،پولیس،سیاستدان وغیرہ سب استاد کے پیچھے یو ں چلتے ہیں جیسے ماضی میں
غلام اپنے آقائو ں کے پیچھے چلتے تھے۔ استاد کی یہی تعظیم مغربی معاشر ے
کی عروج کی داستان ہے۔اس زمانے میں مشرقی معاشرے بھی اساتذہ کے ادب و
احترام کی بنابام عروج پر تھے لیکن پھراساتذہ کے ادب و احترام کے ِاعراض سے
سبب تنز ل کا شکار ہو گئے۔استاد کا مقام مادیت پرستی سے بالاہے۔ اور یہ ا
سی صورت ممکن جب تعلیمی میدان میں اخلاقیات کا بول بالا ہو گا۔ ایک فرض
سمجھ کر کسی بھی میدان میں اخلاقی قدریں عام کی جائیں گی۔عملی مظاہرہ ہو گا
تب ہی معاشرہ اخلاق کے میدان میں پروان چڑھے گا۔ اور یہ کسی ایک کی ذمہ
داری نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو آگے بڑھ کو حصہ لینا ہو گا اپنے اپنے
حصے کا علم اٹھانا ہو گا تبھی تو مسلمان اعلیٰ اخلاقی قدروں کے امین بن
پائیں گے۔
|