علمی، فکری وروحانی شخصیت مفتی محمد خان قادری

 پاکستان میں ہزاروں علماء کے استاد عالم اسلام کی عظیم علمی، فکری اور روحانی شخصیت محقق عصر مفتی محمد خان قادری دامت برکاتہ طویل علالت کے بعدانتقال فرما گئے اﷲ پاک انکی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے وہ قرونِ اولیٰ کے شیوخ الحدیث اور مفتیان کرام کی شبیع تھے۔آج بعد نماز ظہر نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد انہیں انکی ذاتی ملکیتی زمین میں سپرد خاک کردیاگیا۔محقق عصر مفتی محمد خان قادری منہاج القرآن کے بانی ناظم اعلٰی، منہاج القرآن یونیورسٹی کے پہلے چانسلر اور جامعہ اسلامیہ شادمان کے سربراہ تھے۔ آپ کی ساری زندگی فقر و غناء، تعلیم و تربیت اور شریعتِ محمدی صلی اﷲ و علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں گزری۔ اﷲ پاک نے شاید آپ کو دین متین کی آبیاری کیلئے چن لیا تھا یہی وجہ ہے کہ اپنے ہم عصر علماء کے برعکس انہوں نے نمودونمائش، دکھاوا اور ظاہری جبے قبے پہن کرخودنمائی اور نرگسیت کو لات مارکر تقوٰی و طہارت بھری زندگی گزاری۔حضرت مفتی محمد خان قادری سیدنا طاہر علاؤالدین القادری البغدادی علیہ رحمتہ کے حلقہ ارادت میں تھے۔ آپ کی ساری زندگی خشیت الٰہی اور محبت و اطاعت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا درس دیتے گزری اور آخر دم تک اس فریضے کو تمام تر صلاحیتوں کیساتھ نبھاتے رہے۔زمانہ گواہ ہے کہ مفتی محمد خان قادری نے کسی دباؤ لالچ یا منفعت کی خاطر اپنا کردار بیچا نہ قلم بیچی۔ آپکا علم اور کردار اس زمانے میں پہاڑ جتنا تھا۔ اسکے باوجود انہوں نے اس دنیا کے طمع و لالچ اور اپنی اولاد کیلئے مال و متاع اکٹھا کرنے کی بجائے خالصتاً علمی و فکری کاموں کیلئے پوری یکسوئی کیساتھ ہمیشہ خود کو وقف رکھا۔آپ ان ابتدائی چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ایک عظیم تر مقصد کی خاطر اپنا جان ومال لگایا اور طاہر القادری کو شادمان لاہور میں متعارف کروایا اور انہیں جایے پناہ دی لیکن جب دیکھا کہ صاحب قافلہ سارے وسائل اچک لیکر الٹی سمت دوڑا جارہا ہے تو پھر آپ نے علیحدگی اختیار کرنے میں بھی کوئی حیل و حجت یا دنیاوی رکھ رکھاؤ کو خاطر میں نہیں لایا۔ منہاج القرآن کا نام بھی انہی کا تجویز کردا ہے اور منہاج القرآن شریعہ کالج کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی۔ وہ 1991 میں طاہرالقادری کی سیاسی قلابازیوں اور جھوٹے خوابوں کی وجہ سے ان سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے الگ ہوگیے لیکن انکے اندر جو انقلابیت تھی وہ تادم مرگ زندہ رہی وہ ناسازی طبع کے باوجود اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور کبھی کسی سے انہوں نے ذاتی مسائل یا اپنی بیماری کا ذکر نہیں کیامحقق عصر کا تحقیق و تدوین کا یہ سارا کام انکی اپنی ذاتی کاوش ہے اسکا ایک ایک لفظ پڑھکر دیکھ لیں یہ کسی اور کتاب سے نہیں چرایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اسے تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جاتارہے گا اور اہل علم اس سے اپنے تشنگی بجاتے رہیں گے جناب مفتی صاحب علوم قدیم و جدید، اور فارسی و عربی زبان پر کامل دسترس رکھتے تھے اور آپکی کئی جلدوں پر مشتعمل تفسیرکبیر کا ترجمہ اسکا گواہ ہے جسے پڑھے بغیر آپکی علمی و فکری کاوشوں کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔آپ نے تفسیرکبیر جیسی مستند علمی و فکری تاریخی ورثے کا کئی جلدوں پر محیط "فضل قدیر " ترجمہ کیا جو اہل علم اساتزہ اور درس نظامی کرنے والوں کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔محقق عصر مفتی محمد خان قادری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ سچ بولا، سچ لکھا، غلو و بناوٹ سے کلیتاََ اجتناب کیا اور اپنے اصولی موقف کے حق میں اﷲ رسول کے نام کی قسمیں کھاکر زمانے کو تسلیاں دینے کی بجائے ثقہ بند دلائل دیے۔ ہمیشہ گہرے تدبر و تفکر کے بعد حقائق سامنے رکھ کر بات کی اور جو بات کی ساری زندگی اسکا پہرہ دیا۔ آپ علم اور کردار کا ایک پہاڑ تھے آپ نے جو کیا بے لوث کیا اور صلہ کی امید صرف اﷲ رسول سے رکھی مفتی صاحب قدرتی طور پر انتہائی بارعب شخصیت کا مالک ہونے کیساتھ منکسر المزاج اور حد درجہ مہمان نواز تھے۔ کم گفتگو فرماتے لیکن جب بولتے تو آپ کے منہ سے علم و دانش کے موتی جھڑتے بڑے بڑے نام والے لوگ انکی تحریر ، تقریر اور ٹیبل ٹاک پر انکے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں فخر محسوس کرتے اور وہ سب کچھ جاننے کے باوجود اسطرح پیش آتے جیسا ایک وسیع القلب اور شارع احادیث رسول کو ہونا چاہئے بظاہر ایک دینی شخصیت سے 1991 میں مالی اور سیاسی بددیانتی کے بعد جب آپ نے اپنے راستے جداکئے تو پھر کبھی واپس مڑکر نہیں دیکھا۔ اس علیحدگی کی وجوہات جاننے کیلئے لوگوں نے بہت کوشش کی مگر حضرت مفتی محمد خان قادری دامت برکاتہم نے خاموشی اختیار رکھی اور اپنا علمی و تحقیق کام جاری رکھا اس محنت اور اخلاص کا صلہ یہ ملا کہ اﷲ پاک نے انہیں بڑی کامیابیوں سے نوازاآپ نے ہمیشہ اچھل کود اور جوشیلے انداز سے گفتگو کی بجائے مہذب اور شائستہ گفتگو فرمائی اور آواز کی بجائے قرآن وسنت کے دلائل پر زور دیا۔ جامعہ اسلامیہ لاہور اور دیگر کاموں میں آپ کے ساتھ نامور عالم دین علامہ خلیل الرحمن قادری اور جناب عتیق الرحمٰن مجددی نے بھرپور ساتھ دیا اور تین سال قبل راقم کے ساتھ انکی ایک بھرپور علمی و فکری نشست ہوئی اور اس ٹاک شو کو ہزاروں افرادنے سراہا۔یہ نشست تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ آج آپ کی رحلت کی خبر سنکر کلیجہ منہ کو آرہا ہے آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن اہل علم، اہل پاکستان آج ایک عظیم دانشور سے محروم ہوگئے۔ میں آج حضرت کے تمام عزیز و اقارب کے اس دکھ میں برابر کا شریک ہوں اس لئے کہ وہ ہمارے بھی استاد تھے اور ان جیسوں کا شاگرد ہونا بڑیاعزاز کی بات ہے
 

Shahid Janjua
About the Author: Shahid Janjua Read More Articles by Shahid Janjua: 19 Articles with 17444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.