گھر میں راشن کی فراوانی ہے۔ فرمائشی پکوان بن رہے
ہیں۔انٹرنیٹ اور کیبل سروسز بلا تعطل چل رہی ہیں۔ کچھ لوگ باتھ روم کی
ٹائلز گن کر بتا رہے ہیں۔کچھ ونڈو میں لگی سلاخیں اور کچھ چھت پر لگے
گارڈر،ٹی آئرن، لاک ڈاؤن پر لطیفے بن رہے ہیں، مزاحیہ فوٹو شیئر کِئے جارہے
ہیں وغیرہ۔گویا یہ سب کچھ ایک نارمل اور تفنن طبع کا ماحول ہے۔اور یہ سب
خود کو دینی دنیاوی اعتبار سے اعلی تعلیم یافتہ"کہلواتے" ہیں۔افسوس کا مقام
ہے ، یہ ہے ہمارا اصل معاشرتی چہرہ !!!
استغفراللہ واتوب الیہ۔
فرض کریں قید کا یہ دورانیہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
فرض کریں یہ ہفتوں سے مہینوں اور پھر سالوں پر محیط ہو جاتا ہے۔
اللہ الصمد (اللہ بے نیاز ہے)۔ ہے کوئی اللہ سے پوچھنے والا؟ اس کے فیصلوں
میں دخل اندازی کرنے والا؟؟ یقینا کوئی نہیں ۔۔۔
کیاپھر بھی ہمارا رویہ ایسا ہی غیر سنجیدہ ہو گا؟
ہم غفلت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
یقین کے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ اس وحدہ لا شریک کے ہماری زندگی اور موت کے
مالک ہونے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانےکا یقین۔
ابھی ہم زندہ ہیں۔ ابھی ہم وائرس کا شکار بھی نہیں ہوئے ۔ ابھی ہم دنیا کی
رونقوں میں واپس لوٹ جانے کے لئے پر امید ہیں۔ اور ہونا بھی چاہیے۔ کیوں کہ
"لاتقنطو من الرحمتہ اللہ" کا یقین بھی غالب ہے۔
ڈر خوف اور احتیاط کسی بھی غیر یقینی صورتحال یا خطرات (کرونا وائرس کے
شکار ہونے کا خطرہ) کے لئے ہوتے ہیں جبکہ تیاری یقینی اور اٹل (موت)
صورتحال اور واقعات کے لئے ہوتی ہے۔ کیا ہم فراغت کے ان دنوں میں تیاری کا
سوچ رہے ہیں۔
آج زندگی رنگین ہے ، کب سنگین ہو جائے کون جانتا ہے؟
بات لمبی ہو گئی لیکن غیر ضروری قطعی نہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں مہلت کے ان دنوں میں مزید غفلت سے بچائے۔ ہمیں
اپنے روزوشب اور اعمال و اقوال کا ازسرنو جائزہ لینے کی توفیق عطا فرمائے
اور ہماری زندگیوں کو ہر طرح کی وباوں ، بلاوں اور آفات سے محفوظ فرمائیں۔
آمین یا رب العا لمین۔
|