فقہ، اجتہاد اور تقلید ۔ ۱

اسلامی نقطہ نظر سے چونکہ قانون کا اصل سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات پاک ہے، اس لئے شریعت کے تمام قوانین کا رشتہ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی سے ہے۔ البتہ بعض احکام کی نسبت صراحۃً اللہ تعالیٰ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہے, اور بعض احکام قرآن و حدیث سے حاصل ہونے والے اصول و قواعد کی روشنی میں اہل علم نے استنباط کئے ہیں، ان کی بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی جا سکتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلا ذریعہ معصوم ہے، اگر قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت یقینی ہو تو اس میں غلطی کا احتمال نہیں، اور دوسرا ذریعہ معصوم نہیں، کیونکہ اس میں انسانی اجتہاد کو دخل ہے اور انسان کی سوچ غلط بھی ہو سکتی ہے۔

شریعت کے منصوص مصادر چار (۴) ہیں:
۱۔ کتاب اللہ

۲۔ سنت رسول

۳۔ شرائع ما قبل: اس سلسلہ میں اہل علم نے جو گفتگو کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی کتابوں میں جو احکام بیان ہوئے وہ چار طرح کے ہیں۔ اوّل وہ جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ذکر نہیں، بالاتفاق اس امت میں وہ احکام قابل عمل نہیں ہیں۔ دوسرے وہ احکام جن کا قرآن و حدیث میں ذکر آیا ہے اور یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ یہ حکم سابقہ امت کے لئے تھا اور اس امت میں یہ حکم باقی نہیں بلکہ منسوخ ہو چکا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ امت محمدیہ میں اس حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ تیسرے وہ احکام ہیں جو قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ احکام اس امت کے لئے بھی ہیں، بالاتفاق اس شریعت میں بھی ان احکام پر عمل کیا جائے گا۔ چوتھے وہ احکام ہیں جن کو قرآن و حدیث نے پچھلی قوموں کی نسبت سے بیان کیا ہے، لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اس امت کے لئے یہ حکم باقی ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں دو گروہ ہیں، ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس امت کے لئے بھی یہ حکم باقی ہے، دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس امت کے لئے یہ حکم باقی نہیں۔ لیکن یہ اختلاف عملی اعتبار سے چنداں اہم نہیں، کیونکہ عملی طور پر شاید ہی کسی مسئلہ میں اس کی وجہ سے اختلاف رہا ہوگا۔

۴۔ جن مسائل میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو، ان میں صحابہ کے آثار: رسول اللہ ﷺ سے اس دین کو براہ راست صحابہ کرام نے حاصل کیا اور انھیں کے واسطہ سے یہ دین پوری امت تک پہنچا ہے۔ صحابہ سب کے سب عادل، معتبر، خدا ترس اور مخلص تھے، لہٰذا ان کے اقوال اور آراء کی خاص اہمیت ہے۔ پھر بعض مسائل تو وہ ہیں جن میں اجتہاد اور رائے کی گنجائش ہے، اور بعض مسائل وہ ہیں جنھیں کوئی شخص اپنے اجتہاد سے اخذ نہیں کر سکتا، بلکہ لازماً ان کی بنیاد قرآن و حدیث ہی پر ہو گی۔ ان دوسرے قسم کے مسائل میں صحابہ کی رائے حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک حجت و دلیل ہے، اس لئے کہ ان کی رائے حضور ﷺ سے سنی ہوئی کسی بات پر ہی مبنی ہو گی، پس گویا یہ بھی حدیث ہی کے درجہ میں ہے۔

غیر منصوص مصادر دو (۲) ہیں:
۱۔ اجماع: اجماع سے مراد کسی رائے پر رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد امت کے مجتہدین کا متفق ہو جانا ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتی۔ گویا امت کے افراد کے انفرادی اجتہاد میں تو خطاء کا احتمال ہے لیکن اپنی اجتماعی حیثیت میں کسی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتے۔

۲۔ قیاس: قیاس کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں۔ کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی صراحت موجود نہ ہو، لیکن قرآن و حدیث میں اس سے ملتا جلتا کوئی مسئلہ موجود ہو اور اس مسئلہ میں اللہ عزوجل اور رسول ﷺ کے حکم کی جو وجہ ہو سکتی ہو، وہ اس مسئلہ میں بھی موجود ہو، چنانچہ یہاں بھی وہی حکم لگا دیا جائے، اسی کو "قیاس" کہتے ہیں۔ پس غور کیا جائےتو قیاس قرآن و حدیث کے مقابلہ میں دی جانے والی رائے نہیں، بلکہ قیاس کے ذریعے قرآن و حدیث کے حکم کے دائرے کو وسیع کیا جاتا ہے۔

اس تمہید کے بعد اب آتے ہیں اپنے موضوع کے پہلے حصے یعنی "فقہ" کی طرف۔

فقہ
لغت میں فقہ کا معنی ہے کسی شے کا جاننا۔

علما کی رائے یہ ہے کہ فقہ کے مفہوم میں صرف "جاننا" ہی نہیں پایا جاتا بلکہ اس میں دقّت فہم، باریک بینی اور معرفتِ غرضِ متکلم کا مفہوم بھی ہے۔

اصولیین نے فقہ کا لغوی معنی ان الفاظ میں کیا ہے:
"کلامِ متکلم سے اس کی غرض کا پانا"
شیخ ابو زہرہ کے الفاظ بھی قابل توجہ ہیں:
"وہ فہم عمیق جس کے ذریعے اقوال و افعال کے اغراض و مقاصد کو پایا جائے"

یعنی صرف الفاظ کا معنی سمجھ لینا فقہ نہیں، بلکہ ان کی روح کو پانا فقہ کہلاتا ہے۔ آغاز میں شریعت کے تمام احکام کو فقہ کے دائرہ میں شامل کیا گیا، لیکن بعد میں عقائد کی توضیح اور اخلاقی تربیت نے مستقل فنون کی حیثیت حاصل کر لی، چنانچہ عقائد سے متعلق احکام "علم کلام" کہلایا، اور اخلاق سے متعلق مباحث کو "تصوف" کا نام دیا گیا۔ ان دونوں فنون کے ماہرین کو بھی مستقل حیثیت حاصل ہو گئی اور انھیں "متکلمین" اور "صوفیاء" کا لقب دیا گیا۔ اس طرح اب وہ عملی احکام باقی رہ گئے جو محض اخلاقی حیثیت کے حامل نہیں بلکہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں، ان کو "فقہ" سے موسوم کیا گیا۔

اکثر اصولیین نے فقہ کی اصطلاحی تعریف یوں کی ہے:
"احکام شرعیہ عملیہ کا وہ علم جو دلائل تفصیلیہ سے حاصل ہو"
عملیہ سے وہ احکام مراد ہیں جن کا تعلق مکلفّین کے ظاہری اعضاء سے ہو، مثلاً نماز، خرید و فروخت، نکاح وغیرہ۔ بعض اصولیین عملیہ کی جگہ فرعیہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، ان دنوں میں کوئی فرق نہیں۔

اصول فقہ
اصول فقہ اصطلاح میں اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے احکام کے استنباط اور شریعت کے بنیادی مآخذ سے جزوی مسائل اخذ کرنے کے قواعد اور ضابطے معلوم ہو سکیں، اور یہی استنباطِ احکام کا ملکہ حاصل کرنا اس فن کا مقصود اور مطلوب ہے۔

علمائے اصول نے اصول فقہ کی یہ تعریفات کی ہیں:
"وہ قواعد جن کے ذریعے مجتہددلائل تفصیلیہ سے احکام شرعیہ کا استنباط کرتا ہے"
"فقہ کے دلائلِ اجمالی، ان سے استفادہ کا طریقہ اور مستفید کے حال سے آگاہی"

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کام کا طریقہ جو مسلمانوں کو بتایا گیا، قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔ لیکن قرآن حکیم و احادیث مبارکہ سے احکام کو سمجھ کر نکالنا چونکہ دشوار ہے، جس کے کئی اسباب ہیں، لہٰذا ہر شخص یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ خود قرآن و حدیث سے تمام مسائل کا استنباط کر سکے۔ پھر جس طرح عبارت النص سے مسائل سمجھے جاتے ہیں ، اسی طرح دلالت و اشارت و اقتضاء سے بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نظم و معانی سے بےشمار مباحث متعلق ہوتے ہیں۔ پھر اسی قسم کی دقتیں احادیث کے سمجھنے میں بھی پیش آتی ہیں، اور احادیث میں بظاہر بہت کچھ اختلاف بھی معلوم ہوتا ہے۔ ناسخ و منسوخ، حقیقت و مجاز، عموم و خصوص، مجمل و مفسر وغیرہ معلوم کرنا، پھر مقصود شارع کا سمجھنا ہر ایک کا کام نہیں، بلکہ ہر ایک کلام کے سمجھنے میں قرائن سے مدد لی جاتی ہے، گو الفاظ مساعدت نہ کریں، اور یہ ہر ایک کا کام نہیں۔ اس لیے علماء کرام (مجتہدین) نے یہ کام اپنے ذمہ لیا اور مختلف آیات و احادیث سے تحقیق کر کے ہر ایک مسٔلہ بیان کر دیا، اور ایک مدت کی کوشش کے بعد انھوں نے ہر ایک جزئی کا حکم قرآن و حدیث سے نکال کر ایک علم مستقل مدون کیا اور اسی کا نام "فقہ " ہے۔ چناچہ فقہ کو قرآن و حدیث کے خلاف سمجھنا درست نہیں۔ جس طرح قانون کی شرح قانون ہی کے ضمن میں آتی ہے، اسی طرح فقہ بھی قرآن و حدیث ہی کا بیان و تفسیر ہے۔

کتاب اور سنت کے علم کے لیے کچھ علوم مشترک ہیں جن کا مجتہدکو جاننا ضروری ہے۔یعنی اسے ان علوم میں اس قدر مہارت ہو کہ وہ قرآن اور حدیث کے معانی کو اسلوب عرب کے مطابق صحیح طور پر سمجھ سکے۔ لغت، صرف و نحو،علم بلاغت اور علم کلام کے علاوہ مجتہدکے لیے ضروری ہے کہ وہ کلام صریح، کلام مجمل، حقیقت، مجاذ، عام، خاص، محکم، متشابہ، مطلق،مقید وغیرہ کا علم بھی حاصل کرے ۔ ان علوم کے علاوہ مجتہد کے لیے کتاب و سنت کے ناسخ و منسوخ کاعلم بھی ضروری ہے، اس لیے کہ کہیں وہ ایسا حکم نہ بیان کر دے جو قرآن یا حدیث میں منسوخ ہو چکا ہو۔

امام غزالی لکھتے ہیں کہ مجتہد کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ اس کا علم تمام علوم شرعیہ کو محیط ہو اور وہ غور وفکر سے حکم شرعی معلوم کر سکتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ استنباط مسائل میں کون سے علوم مقدم ہیں اور کون سے مؤخر۔دوسری شرط یہ ہے کہ وہ نیک اور پرہیزگار ہو اوران گناہوں سے مجتنب ہو جواس کی بدنامی کاباعث اور اس کی پرہیزگاری کے خلاف ہوں۔

فقاہت کیا چیز ہے اور تفقہ فی الدین کب حاصل ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں: فقہ یہ نہیں کہ کسی جزئیہ کے متعلق کتاب سے عبارت نکال کر اس کا لفظی ترجمہ سمجھ لیا جائے۔ یوں تو ہر اعرابی ہر بدوی فقیہ ہوتا کہ ان کی مادری زبان عربی ہے۔ بلکہ فقہ بعد ملاحظہ اصول مقررہ، و ضوابت محررہ، و وجوہِ متکلم، و طرق تفاہم، و تنقیح مناط، و لحاظ انضباط، و مواضع یسر و احتیاط، و تجنب تفریط و افراط، و فرق روایات ظاہرہ و نادرہ، و تمییز درایات غامضہ و ظاہرہ، و منطوق و مفہوم صریح و محتمل، و قول بعض و جمہور و مرسل و معلل، و وزن الفاظ مفتین، و سبر مراتب ناقلین، و عرف عام و خاص، و عادات بلادو اشخاص، و حال زمان ومکان، و احوال رعایا و سلطان، و حفظ مصالح دین، و دفع مفاسد مفسدین، و علم وجوہ ترجیح، و اسباب ترجیح، و مناہج توفیق، و مدارک تطبیق، و مسالک تخصیص، و مناسک تقیید، و مشارع قیود، و شوارع مقصود، و جمع کلام، و نقد مرام، و فہم مراد کا نام ہے۔ کہ تطلع تام، و اطلاع عام، و نظر دقیق، و فکر عمیق، و طول خدمت علم، و ممارست فن، و تیقظ وافی، و ذہن صافی، معتاد تحقیق، موید بتوفیق کا کام ہے۔ اور حقیقۃً وہ نہیں مگر ایک نور کہ رب عزوجل بمحض کرم اپنے بندہ کے قلب میں القاء فرماتا ہے۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 410062 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.