میں بہت بولتاہوں۔سب لوگ میرامنہ تکتے رہتے ہیں۔میں کسی
کوموقع ہی نہیں دیتاکہ وہ بھی کوئی بات کرے۔ لوگوں کو گرفت میں لینے کاکوئی
موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔میں یہ بھی نہیں دیکھتاکہ میرامخالف کون
ہے۔بڑاہے،چھوٹاہے،مرد ہے،عورت ہے،بچے ہیں۔بس بلاتکان بولتارہتاہوں۔ ہاں میں
نے بہت مرتبہ پڑھاہے”جوخاموش رہاوہ نجات پاگیا”لیکن میں نے اس پر کبھی عمل
نہیں کیا۔ شاید کرہی نہیں سکتا۔خودپسندی اوراپنی فوں فاں میں مگن،اپنے
خیالات کااسیراوراپنی چرب زبانی پرنازاں۔
ایک دن میرے ایک بہت ہی پیارے بابے نے مجھ سے ایک عجیب سی بات کی”دیکھ پگلے
توبہت بولتاہے۔محفل کودیکھ کر بات کیا کر۔جس نے دیکھا نہیں اُسے
کیادکھانا۔ہنساکر،ہنسایاکرلیکن ہربات ہرایک سے نہیں کرنی۔دیکھ توآنکھیں،کان
کھلے اوراپنی زبان بند رکھ۔ تنہائی سے بات کر،محفل میں خاموش رہ،اکیلے میں
محفل سجااورمحفل میں تنہا ہوجا۔”
“واہ ،واہ کیا بیکارسی بات کی آپ نے،کوئی کام کی بات بتایاکریں۔ خوامخواہ
کی بات”میں نے انہیں خاموش کردیا۔
“اوٹھیک ہے،ٹھیک ہے پگلے،تیرااچھابھی راہ پرآئے گا۔”
کتنی بدنصیبی ہے،میں اب تک گمراہ ہوں۔کتنی عجیب سی بات ہے،میں کچھ نہیں
جانتااورجاننے کادعوے دارہوں۔میں اپنے جہل کوعلم کہتاہوں،چرب زبانی
کوذہانت،مکاری کواخلاص،ہوس کومحبت،چالاکی کوہنر،دھوکے کوکمال،کراہت کو جمال،
اداکاری کو ہتھیارسمجھتاہوں۔لیکن یہ کیا؟ایک ان دیکھا جراثیم “کرونا”نے
ساری دنیامیں ایساخوف برپاکردیاکہ جو چاندکے بعدمریخ کوفتح کرنے کے دعوے
کررہے تھے،کس قدرسہمے ہوئے اوربے بس ہیں اوران کی سمجھ میں نہیں آرہاکہ اس
کامقابلہ کیسے کیاجائے لیکن ہمارے حکمران توبہ کرنے کی بجائے بڑھکیں ماررہے
ہیں کہ ہمیں اس سے ڈرنا نہیں،ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔کوئی انہیں سمجھائے
کہ صحت وطبی سہولتوں میں اٹلی دنیامیں دوسرے نمبرپرتھااورآج اٹلی کاصدرٹی
وی کیمروں کی چکاچوند روشنی میں تڑپ کررورہاہے اورانسانی حقوق کے چیمپئن
خوداپنے بوڑھوں کوگھروں میں قیدتنہائی میں بے یارومددگارچھوڑکران کے اہل
وعیال کوبھی ان سے دوررہنے کامشورہ دے رہے ہیں۔یورپ بھرمیں قبرستان کم
پڑگئے ہیں اورمرنے والوں کوجلانے کاعمل شروع کردیاگیاہے کہ “کرونا”تومیت
کابھی ساتھ نہیں چھوڑتا۔
میں ڈراہواہوں،سہماہواہوں،خوفزدہ ہوں،خودکوبہت بہادرسمجھتاتھا۔میری نیت کچھ
اورتھی اورعمل کچھ اور۔میں صرف اپنی محبت میں گرفتارتھا اورخود کوآزاد
سمجھتا تھا۔میں اپنےنفس کی پیروی کرتاتھا اورسمجھتاتھا کہ میں رب کابندہ
ہوں۔ میں رب سے محبت کادعویٰ کرتااورمخلوق کیلئے
آزاربنارہتا.تھا۔میرارونامکرکاروناتھا۔میرے آنسوفریب تھے۔میری ہمدردی
دکھاوا تھا۔میراایثار تجارتی تھا۔میراخلوص بازاری تھا۔میں مجسم فنکاری
بنارہا۔ تاجر اور نراتاجر،جوجمع تفریق سے اب بھی بازنہیں آیا،ماسک
اورجراثیم کش ادویات کوسٹاک کرکے موت سے بھی تجارت کاطلب گارہوں،مکروفریب
کی دنیا کا باسی،ہوس نفس کاپجاری ، میں کسی کے کام نہیں آرہااورتوقع
رکھتاہوں کہ لوگ میرے حضوردست بستہ کھڑے رہیں۔میں سب کے حقوق غضب کرکے بھی
اپنے حقوق کاطلبگار ہوں۔میں دوسروں کوان کے فرائض یاددلاتارہتاہوں اوراپنے
فرائض کوبھول گیا ہوں۔
میں نے نصیحت کرنے کاآسان کام اپنے لئے منتخب کرلیاہے اوراس پرعمل کرنے
کامشکل کام مخلوق کیلئے رکھ چھوڑاہے۔میں کالم اس لئے نہیں لکھتاکہ اس سے
خلق خداروشنی پائے،میں یہ اس لئے لکھتاہوں کہ مجھے اس سے شہرت مل جائے
اورناموری کامجھے چسکا لگ گیاہے۔میں چاہتاہوں کہ لوگ میری بات سنیں،چاہے
میں ان کی کوئی بات بھی نہ سنوں۔میں اوروں کو آئینہ دکھاتا رہتاہوں اورکوئی
مجھے آئینہ دکھائے تومنہ سے جھاگ اڑانے لگتاہوں۔
میں خودکوبہت باعلم اورلوگوں کومجسم جہل سمجھتارہا۔ میری خواہش رہی کہ جب
میں کسی تقریب میں جاؤں توسب لوگ میرے احترام میں کھڑے ہو جائیں اور کھڑے
لوگوں کودیکھ کرمیری گردن اوراکڑجاتی تھی مگراب لوگوں کے قریب پھٹکنے سے
بھی خوف آتاہے اوراگرکوئی میرے پاس اپنادکھ بیان کرنے آتاتومیں مصروفیت
کوخودپراوڑھ کراسے چلتاکردیتا۔ معصوم و مظلوم انسانوں کے چہروں پراداسی ناچ
رہی ہے،بھوک نے انہیں بنجربنادیاہے ،وہ دربدر خاک بسرہوگئے ہیں مگر میں
اپنی دانشوری کاکما ل د کھارہاہوں اورپھربھی انسانیت کے دکھوں کاپرچارک
بناہواہوں۔وہ رت جگے کررہے ہیں اورمیں چین سے سورہاہوں۔میرے ووٹر اپنے
جائزکاموں کیلئے خوارہو رہے ہیں اورمیرے دوستوں کے ایک فون پرسارے کام ہو
جاتے ہیں ۔وہ دھوپ میں لائن لگاکرکھڑے ہیں اورمیرے ساتھی اندرجاکر افسرسے
چائے پی کراپناکام کروالیتے ہیں۔ عجیب سی بات ہے ناں۔
میں سیمینارپرسیمینارسجاتارہا ،پینے کیلئے منرل واٹر، یخ بستہ پنج وہفت
ستارہ ہوٹلوں میں قیام، لگژری گاڑیوں کے جلوس میں سفرکرتاہوں
اورروناروتاہوں مفلوک الحالوں کا۔میں نے آج تک فاقہ نہیں کیااوراپنی
تقریروں میں فاقہ زدوں کادکھ بیان کرتاہوں۔میں نے غربت دیکھی تک نہیں
اورغریبوں کاہمدرد بنا پھرتاہوں۔میرے الفاظ نرے لفظ ،بے روح لفظ۔میں لایعنی
تحقیق میں لگارہتاہوں۔میں زندہ مسائل کو نظراندازکرکے اپنے ووٹرکوفضول
مباحث میں الجھائے رکھتاہوں۔اس لئے کہ کہیں اصل مسائل کی طرف اس کی توجہ نہ
چلی جائے اوروہ اس انسان کش نظام کے خلاف اٹھ کھڑانہ ہو۔ عجیب ہوں ناں میں۔
میں خوددوغلاہوں اوراوروں کومنافق کہتاہوں۔میں نے اپنے
ضمیرکاسوداکرلیاہے،میرے اندرسے بدبوکے بھبکے اٹھ رہے ہیں اور میں اوپرسے
خوشبولگائے پھرتاہوں۔میں اپنے اندرکے انسان کوسولی دے چکاہوں۔میں خوبصورت
لباس میں درندہ ہوں۔میں صرف خودجیناچاہتاہوں۔مجھے لوگوں سے کوئی سروکارنہیں
ہے۔مجھے اپناپیٹ بھرناہے،مجھے بھوکوں،ننگوں،ناداروں،مفلسوں سے کیا
لینادینا۔ میں زرداروں کے آگے بچھاجاتاہوں اورکوئی نادارسلام کرنےکی کوشش
کرے توگاڑی کاشیشہ اوپرچڑھالیتا ہوں۔اسلام کے نام پراپنے سامعین
کورلادیتاہوں۔حکمرانوں کی تعریف وتوصیف میں سب کچھ بھول جاتاہوں لیکن مجھے
اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں اپنی تعریف سن کرنہال ہوتارہتاہوں۔میں بندۂ رب
نہیں بندۂ نفس ہوں۔
میں یہ بھول گیاہوں کہ اصل کوبقاہے۔جعل سازی کبھی پنپ نہیں سکتی۔بارآورنہیں
ہوسکتی۔کوئی انقلاب نہیں لاسکتی۔ گلے سڑے نظام کی پیوندکاری کب تک کی
جاسکتی ہے۔آخراس انسان کش نظام کوفناہوناہے اورمجھے بھی۔سب اپنی اپنی قبر
کاپیٹ بھریں گے۔کروناکی شکل میں موت میرے تعاقب میں ہے اورمیں جینے کیلئے
منصوبے بنارہاہوں۔ عجیب ہوں ناں میں.
اجل سے خوفزدہ،زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
کہ جی رہے ہیں میرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
یہ عجزِ خلق ہے یا قاتلوں کی دہشت ہے
رواں دواں ہیں ہتھیلی پہ سردھرے ہوئے لوگ
|