میرے مغرب زدہ مسلمان نوجوانو! ذرا اس بات پر بھی ٹھنڈے
دل سے غور فرمائیں کہ جن اسلامی احکامات اور حدود پر آپ تنقید کرتے ہیں
مذاق اڑاتے ہیں انکو وحشیا نہ کہتے ہیں انھیں تعلیمات اور احکامات کو پڑھ
کر انکی عالمگیر افادیت سے متاثر ہو کر عیسائی دنیا کے بڑے بڑے پڑھے لکھے
دانشور لوگ مرد اور عورتیں کیوں عیسائیت سے توبہ کر کے اسلام قبول کر رہے
ہیں وہ آپ سے زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک اور بال کی کھال نکالنے والے استدلال
کے شیدائی لوگ اسلامی فکر کے آگے کیوں سر جھکا دیتے ہیں ۔میرے بھائیو یورپ
میں جس تیزی سے اسلام پھیل رہا ہے یورپ کے پالیسی ساز فلاسفر ،صحافی
،دانشور ،مستشرقین،اور خود حکومت کے نمائندے اس نئے انقلاب پر انگشت بد
نداں اور محو حیرت ہیں کہ اس کے باوجود کہ ہم نے مرد و عورت کو ہر طرح
آزادی دی،شراب کو پانی کی طرح عام کیا ،شہوت رانی کے لئے نائٹ کلب اور نیوڈ
کلب موجود ہیں ،صحت کے مراکز ہیں۔تعلیم مفت ہے،بے روزگار لوگوں کو روزگار
الاؤنس دیتے ہیں۔بچوں کی پرورش حکومت کی ذمہ داری ہے عرضیکہ یورپ کے شہریوں
کو سماجی ،سیاسی ،فلاسفی،معاشرتی،ہر قسم کی سہولت ہم فراہم کرتے ہیں مگر اس
کے باوجود یورپ میں عیسائیت کے بجائے دن بدن اسلام کو فروغ حاصل ہو رہا ہے
۔11ستمبر کو امریکہ میں جو واقعہ پیش آیا اس کے بعد جس تیزی سے عیسائی
اسلام کی طرف راغب ہوئے اسکی مثال نہیں ملتی ۔اٹلی سے شائع ہونے والے اخبار
(the joumal)میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ دو سو سال بعد یورپی معاشرہ مکمل
طور پر اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لے گا۔امریکہ کے ایک آزاد تحقیقی
ادارے کے مطابق 2025تک زمین پر آباد لوگو ں میں ایک تہائی کی اکثریت مسلمان
ہو چکی ہو گی۔سان دیا یونیورسٹی کے ایک محقق جان ویکس کے مطابق 2020 ھ تک
دنیا میں ہر چار افراد میں سے ایک مسلمان ہو گا۔معروف پادری ماجولینی کے
بقول مستقبل اسلام کا ہے ۔امریکہ کے ایک تجربے کے مطابق 2025ء تک مسلمان
پوری دنیا میں آبادی کے اعتبار سے 35.5 فیصد جبکہ عیسائی20.2 ہونگے
۔انگلستان کے مشہور مفکر اور دانشور جارج برنارڈ شا کا یہ قول تاریخ کی
کتابوں میں بہت مشہور ہے ۔آنے والی صدی میں دنیا کے سب ہی مذاہب فنا ہو
جائینگے سوئے مذہب اسلام کے کیونکہ یہی ایک ایسا مذہب ہے جو وقت کے تمام
تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔عربی میں ایک کہاوت ہے اصلی تعریف وہی ہے جو دشمن
بھی کرنے پر مجبو ر ہو جائے ۔دوستو بڑے شرم اور غیرت کی بات ہے کہ ہمارے
دشمن تو ہمارے مذہب کی تعریف کریں اور ہم اس کے ماننے والے اس میں کیڑے
نکالیں۔دراصل بات یہ ہے کہ جو اسلام کی تعلیمات اور احکامات پر تنقید کرتے
ہیں اور کیڑے نکالتے ہیں ان کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہو ا جن کے
دلوں میں ایمان کی حلاوت جڑ پکڑ لیتی ہے انکی حالت پھر ایسی ہو جاتی ہے
جیسے ایک انگریز دانشور لیو پولڈ جنکا اسلامی نام اب محمد اسد ہے نے اپنی
کتاب A rood to maccaمیں اسلام لانے کے بعد اپنی حالت بیان کی ہے لکھتے
ہیں:
1923ء کے موسم خزاں میں شام سے میں نے یورپ کے مناظر اب مجھے اجنبی لگ رہے
تھے اب مجھے یہاں کے لوگ بہت مکروہ اور حقیر دکھائی دیتے تھے ۔ان کی حرکات
بہت بھدی اور بے ڈھنگی نظر آتی تھیں جن میں ان کے ارادے اور شعور کے ساتھ
کرتے ہیں مگر درحقیقت وہ کسی قسم کے مقصد اور نصب العین کے بغیر برابر
اندھے راستوں پر چلے جارہے تھے۔اس مرتبہ میں نے پہلی مرتبہ عیسائیت کا
مطالعہ کیا اور اسے سمجھنے کی کوشش کی مگر اس اعتبار سے بہت جلد مایوسی کا
سامنا کرنا پڑا کیونکہ عیسائیت جسم و روح اور عقیدہ و عمل کے درمیان
افسوسناک تفریق کرتی ہے اور گوناگو ں مسائل سے لبریز اس زمانے کے انسانوں
کی رہنمائی کرنے سے بالکل ناقابل اور یکسر قاصر ہے۔دیکھا آپ نے ایک انگریز
نو مسلم کے دل میں ایمان اترتے ہی اس کے نقطہ نظر میں کیسی زبردست تبدیلی
ہو گئی کہ جس ماحول اور معاشرے میں اس نے پوری زندگی گذاری تھی اور جو ہر
طرح قابل تحسین تھا ایمان لاتے ہی اب وہ حقیر نظر آنے لگا انکا طرز زندگی
اور تہذیب بھدی اور بے ڈھنگی معلوم ہونے لگی۔
|