اپریل فول اور اس کی حقیقت

جب بھی معاشرے میں کوئی وبا پھیلتی ہے تو اس کے تدارک کے لئے محقق سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لا کر اس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کسی مرض کی نشاندہی ہوتی ہے تو اس کا توڑ کرنے والی ادویات پر بھی غور و فکر کا دائرہ کار وسیع کر دیا جاتا ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہم لفظ "بیماری" کو صرف جسمانی بیماری خیال کرتے ہیں جبکہ روحانی بیماریاں،اخلاقی بیماریاں،سماجی بیماریاں اور سیاسی بیماریاں جوجسمانی بیماریوں سے کہیں ذیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہیں اور اصل توجہ اور علاج کی مستحق بیماریاں ہیں ان سے مکمل طور پر نا واقف ہیں۔یہ بیماریاں عدم توجہی کا شکار ہو کر ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہیں اور ہمیں ادراک تک نہیں ہے اور چونکہ ادراک نہیں لہٰذا اس کے تدارک کی بھی کوئی فکرنہیں ہے۔یہ اخلاقی بیماریاں جو اخلاقی انحطاط کا سب سے برا سبب ہیں ان میں سے ایک بیماری دروغ گوئی ہے جو کثرت سے معاشرے کا جزولا ینفک بن چکی ہے ۔آج معاشرے میں جھوٹ بولنے کو گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا بلکہ مجبوری، ضرورت، مصلحت، باعث ِتفریح اور تقاضائے وقت جیسے خوبصورت لفظوں کا لبادہ اوڑھا کر اپنی معاشرتی بصیرت ،دور اندیشی ،سیاست دانی اور دانشمندی کا حصہ سمجھ کر اس ذہانت پر فخر کیا جاتا ہے۔قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر اس حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں۔مسلمانوں کو اخلاقی طور پر پست کر کے ان کی ناطاقتی کو غلامی میں تبدیل کرنے کی روش یہود و نصاریٰ کی طرف سے ہمہ وقت جاری ہے اور اس ضمن میں وہ ہمیں عملی طور پر کسی نہ کسی قسم کی خرافات میں الجھائے رکھتے ہیں۔ان میں سے ایک اپریل فول بھی ہے۔انسانی فطرت ہے کہ وہ گناہ کی طرف جلد مائل ہو جاتا ہے کیونکہ گناہ میں بظاہر لذت دکھائی دیتی ہے اور اسے بڑادیدہ زیب اور دلکش بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔اور ہم حقیقت جانے بغیر اس کا قائل ہو کرخوشی کا زریعہ گردانتے ہوئے قبول کر بیٹھتے ہیں اور ناقابلِ تلافی نقصانات اٹھاتے ہیں۔یکم اپریل کو مغربی دنیا میں اپریل فول کیوں منایا جاتا ہے؟اس کے پس منظر میں کتنا دل خراش واقعہ ہے،مسلمانوں کی سادہ لوحی اور بے بسی کے ساتھ کیسا گھناؤنا اور اذیت ناک سلوک ہے کہ تصور کرنے سے جھرجھری آنے لگتی ہے۔اسپین پر عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دیں تو قتل و غارت سے تھک کر بادشاہ فرڈیننڈ نے ایک بھیانک سازش رچاتے ہوئے یہ اعلان کروایا کہ یہاں مسلمانوں کی جان محفوظ نہیں رہ سکتی لہٰذا ایک الگ ملک ان کے لئے بنا دیا گیا ہے اور یہ وہاں آرام سے آزادی سے رہ سکتے ہیں۔جو مسلمان وہاں جانا چاہتے ہیں انہیں بحری جہاز کے زریعے وہاں پہنچا دیا جائے گا۔لا تعداد مسلمان اس پیشکش کو عافیت سمجھتے ہوئے جہاز میں سوار ہو گئے۔سمندر کے بیچ میں جا کر فرڈیننڈ کے گماشتوں نے جہاز میں بارود سے سوراخ کر دیے اور خود حفاظتی کشتیوں میں سوار ہو کر نکل گئے۔چشم زدن میں پورا جہاز مسافروں سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔اس پر عیسائی دنیا نے بڑی خوشیاں منائیں ا ور مسلمانوں کو بے وقوف بنانے پر بادشاہ کی اس شرارت کو بہت سراہا۔اس روز یکم اپریل تھا۔اور پھر اس دن کو باقاعدہ خوشی کی علامت سمجھ کر منایا جانے لگا۔معروف مغربی لکھاری جیفری چاسر نے اپنی کتاب"کینٹبری ٹیلز" میں 32 مارچ کا تذکرہ کر کے مزاح کا عنصر پیش کیا۔جو ایک طرح سے بے وقوف بنانے کے مترادف تھا۔ویسے آج کے جدید ادبی اسکالرز اس کو محض کتابت کی غلطی گردانتے ہیں۔اب خود اندازہ لگائیے کہ جس شغل کی بنیاد اور ابتدا جھوٹ،دھوکا دہی اور مسلمانوں کو اذیت دینے سے ہوئی ہو ،اسے اسلامی معاشرے میں اپنانا اور منانا کس قدر تکلیف دہ امر ہے۔حضورؐ سرورِ عالم جو سراپا صفات ہیں اور منبع خیر اور ردِ شر و شرک ہیں،انہیں عملی، ظاہری زندگی میں ملنے والا پہلا لقب ہی صادق ہے۔یعنی لا محدود مناقب و صفات میں سے آپؐ نے معاشرے میں سب سے پہلے جس صفت کا اظہار فرمایا وہ صداقت ہے جو جھوٹ کی ضد ہے۔اس میں امت کے لئے بہت بڑا درس پنہاں ہے۔ آج عیسائی مسلمانوں کے ملک میں مسلمانوں کو اپریل فول مناتے ہوئے دیکھ کر ہمارا کیسا مذاق اڑاتے ہوں گے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے نصاب میں ایسی سازشوں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے اور ان سازشوں کی حقیقت سے پردہ اٹھا کر ہی ہم ایسی رذائل اخلاق خرافات سے نفرت پیدا کر سکیں گے۔اگر انہیں اسی طرح محض تفریح کا ذریعہ بنا کر اور بے ضرر سمجھ کر پیش کیا جاتا رہا تو ہم اپنی آئندہ آنے والے نسلوں کو ان گمراہیوں کی دلدل سے کبھی نکال نہیں پائیں گے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خود بھی سمجھیں اور اپنی اولادوں کو بھی حقیقت سے آگاہ کریں۔ویسے بھی آج کل ملک کے جو حالات ہیں صرف توبہ ہی ہمیں بچا سکتی ہے۔بقول راقم
پہنچا دے ہر بیمار تلک اے مرے خدا
پیغامِ شِفا جو بھی میرے ذہن سے نکلے
 

Awaia Khlid
About the Author: Awaia Khlid Read More Articles by Awaia Khlid: 36 Articles with 29676 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.