صحافت کی بڑھتی ہوئی اقسام

جس طرح ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی اس طرح ہر پریس کارڈ والا شخص صحافی نہیں ہوتا،صحافی وہ ہوتا ہے جو صحافت کو الف سے ب تک سمجھتا ہے لیکن آج کل کے دور میں ایسا ضروری نہیں ہے اب تو صحافی بننے کے لیے پریس کارڈ بھی ضروری نہیں رہا،لوگ فیس بک پرکوئی پیج بناتے ہیں اور صحافی بن جاتے ہیں،اب تو لگتا ہے کہ پاکستان کا ہر بندہ ہی گھر بیٹھے صحافی بنا ہوا ہے،ایک وقت تھا کہ صحافت بلیک اینڈ وائٹ ہوتی تھی پھر زرد صحافت آگئی لیکن اب تو صحافت کے نئے سے نئے رنگ نکل آئے ہیں ،کبھی ایک نمبر اور دو نمبر صحافت ہوتی تھی اور پھر صحافت کے کئی نمبر سامنے آگئے ،ایک دور تھا کہ چند اخبارات ہوتے تھے جن سے وابستہ ایڈیٹرز،رپورٹرز وغیرہ کو صحافی کہا جاتا تھا،پھر الیکٹرک میڈیا کا دور آیا،تونئے سے نئے چینل آگئے، پھر مائیک والے صحافی آگئے،کچھ سڑکوں پر رپورٹنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کوئی کیمرے کے آگے بیٹھ کر بھاشن دیتے ہیں،صحافت کو ترقی ملتی رہی اور صحافت کی اقسام بڑھتی رہیں،سوشل میڈیا کا دور آیا تو صحافت کی اقسام بڑھنے کی رفتار بے لگام ہو گئی،بہت سارے آن لائن اخبارات اور بہت سارے ویب چینلز منظر عام پر آگئے،صحافیوں کا ڈھیر لگ گیا ،پیسے دو ،پریس کارڈ لو اور صحافی بن جاؤ،حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ادارے کی جانب سے بار بار ایک اشتہار سب کی نظروں سے گزر رہا تھا جس میں لوگوں کو صحافی بننے کی آفر دی جا رہی تھی اور بیورو چیف،نامہ نگار،چیف رپورٹر الغرض نمائیندگان کی ہر کیٹیگری کے لیے باقاعدہ ایک ریٹ لسٹ آویزاں کی گئی تھی ،کہ آپ جس قسم کا صحافی بننا چاہتے ہیں اس کے حساب سے پیسے ادا کریں اور صحافی بن جائیں،کئی لوگ اپنے پیج اور یو ٹیوب چینل بنا کر بھی صحافی بنے ہوئے ہیں،اس طرح صحافیوں کی بڑھتی ہوئی نفری کی وجہ صحافتی تنظیموں کی بھی بھرمار ہو گئی ہے اور اب تو ہر شہر میں چار چار،پانچ پانچ پریس کلب بنے ہوئے ہیں ،ہر ایک نے اپنی ڈھیڑ اینٹ کی الگ الگ مسجد بنا رکھی ہے
،
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ صحافت کی اقسام تو بڑھ رہی ہیں یعنی مقدار تو بڑھ رہی ہے لیکن معیار گر رہا ہے،ریٹنگ کے چکر میں،ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے چکر میں غیر ذمہ دارنہ صحافت اب زیادہ ہو گئی ہے،بغیر تصدیق شدہ خبریں پھیلا کر سنسنی پھیلا دی جاتی ہے،سوشل میڈیا کے خود ساختہ صحافی اس معاملے میں جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں،حالیہ کرونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال میں بھی غیر ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ ہر جگہ دیکھنے کو ملا۔

اپنے شہر ڈسکہ کی بات ہی کروں گا کہ ضلع سیالکوٹ سے ایک ہی کرونا کا کیس مثبت آیا اور اس کا تعلق ڈسکہ شہر سے تھا،حمزہ نامی ایک نوجوان جو فرانس سے آیا تھا،آنے کے چند دن بعد اس نے اپنا ٹیسٹ کروایا جو مثبت نکل آیا،اس حوالے سے فیس بک اور یوٹیوب پر چلنے والے ڈسکہ کے مقامی چینلز نے بھر پور سنسنی پھیلائی اور پھر اس میں سوشل میڈیا کے بہت سارے خود ساختہ صحافیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا،یہ خبر عام عام کر کے دہشت کی سی صورت پیدا کی گئی کہ وہ نوجوان تیس پینتیس لوگوں سے ملا اوراب ان سب لوگوں کو حکام لے گئے ہیں اور ان کے گھروں کو سیل کر دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ ،اس حوالے سے ڈسکہ کی کئی بڑی شاپس کا نام بھی لیا گیا کہ وہ وہاں بھی جاتا رہا،کرونا وئیرس کامریض حمزہ جو اب سیالکوٹ ہاسپٹل میں آئیسولیٹ ہے،اس نے پھر خود ایک وڈیو بیان جاری کیا اور اس میں ایسی بہت ساری خبروں کی تردید کی کہ جن کی وجہ سے چند دنوں میں خوب سنسنی پھیلائی گئی،
صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ صحافت بھی صحت مند ہو اور صحافی ہمیشہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

 

Abid Mehmood Abid
About the Author: Abid Mehmood Abid Read More Articles by Abid Mehmood Abid: 3 Articles with 3877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.