کرونا کی نصیحت کیوں؟

دنیا میں پھیلنے والے کرونا وائرس کی اصل وجہ

کچھ عرصہ پہلے تک انسان اپنی روزمرہ زندگی میں مصروف بغیر کسی ڈر اور خوف کے آسمان کی بلندیوں میں محو پرواز اور سمندر کی تہوں میں غوطہ زن تھا۔کسی کو طاقت پر غرور تو کسی کو دولت پر تکبر تھا، کوئی ٹیکنالوجی پر فخر کررہا تھا تو کوئی سپرپاور ہونے پر اکڑ رہا تھا۔ کسی کو کسی کی پرواہ نہ تھی۔ سبھی دنیا کی حکمرانی اور طاقت کے لیئے سازشوں اور بغاوتوں میں مصروف تھے کہ اچانک ایسا موذی وائرس منظر عام پر آیا جس نے امیر،غریب، مذہب،رنگ،نسل،حاکم و محکوم،طاقتور اور کمزور حتی کہ کسی بھی امتیاز کے بغیر سب کو اپنا شکار بنانا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا اس وائرس کا شکار ہوگئی۔

انسان بیچارہ اس قدر مجبور ہوگیا کہ جب کوئی اس وائرس میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے دوسروں سے الگ کردیا جاتا ہے اور اگر کوئی مرجائے تو اس کے اپنے بھی اسے دفنانے پاس تک نہیں جاسکتے۔

انسان جو چند ماہ پہلے خود پر تکبر،گھمنڈ اور غرور کرتا تھا آج وہ حکمرانی،طاقت اور دولت کے باوجود کمزور، بےبس اور لاچار ہے۔

آج انسان پہ ترس آرہا ہے اور اس کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جارہی۔اس قدر کمزوری،بےبسی اور لاچاری دیکھ کر خیال آیا کہ اسے اس وائرس کی اصل وجہ بتادی جائے۔

میرا تعلق اس موذی وائرس کرونا کے خاندان سے ہے جس کی وجہ سے انسان کا تکبر اور غرور خاک میں مل گیا۔ ہم کئی سو سالوں سے چمگادڑوں کے جسموں میں رہ رہے ہیں۔ روز ان (چمگادڑوں) کے ساتھ ایک سے دوسرے علاقے میں جاتے تو انسانوں کو سرعام خدا کی نافرمانی کرتے دیکھتے اور اندر ہی اندر غصے سے کھولتے رہتے۔ ہم نے کئی بار خدا سے شکایت بھی کی اور التجا بھی کہ اے ہمارے رب! اب تو انسان نے ان معصوم چمگادڑوں کا شکار بھی شروع کردیا ہے اب تو ہم کو حکم فرما کہ ہم انہیں برباد کردیں لیکن ہر بار حکم ہوتا کہ ابھی نہیں۔ قتل، زنا، بدکاری، شراب نوشی، جوا، سود حتی کہ کوئی بے حیائی اور برائی باقی نہ رہی تھی لیکن ان بے شمار گناہوں کے باوجود انسان بچتا رہا تھا۔

چند ماہ پہلے رب العالمین نے ہمیں حکم فرمایا کہ اب لوگوں کو ہلکا سا اس بیماری میں مبتلا کردو۔۔۔۔۔ ابھی تو چند ماہ ہوئے ہیں۔ انسان کی طاقت، دولت، ٹیکنالوجی، غرور،تکبر ہر چیز خاک میں مل گئی ہے۔

ہم سے پیدا کیا گیا یہ مرض چند ماہ اور رہے گا پھر اس کا خاتمہ ممکن ہوگا لیکن اس کے لیئے چند شرائط ہیں جن پہ عمل کرنا بہت ضروری ہے۔

اول تو انسان کو خدا کی ناراضگی کی اصل وجہ ڈھونڈنا ہوگی۔ جس نے ہمیں بھی پریشان کیا ہوا ہے کہ ہر برائی تو انسان کرچکا تھا لیکن خدا ناراض نہیں ہوا۔ جسے خالق دو جہاں نے اشرف المخلوقات بنایا تھا اس نے ایسا کونسا گناہ کیا کہ خدا کی ناراضگی کا حق دار ٹھہرا۔۔۔

ابھی تو ہم کو ہلکی سی وبا پھیلانے کی اجازت ہے اور انسان کی بے بسی سب کے سامنے ہے۔ ڈر ہے کہیں ایسا نا ہو کہ خدا کی ناراضگی بڑھ جائے اور مکمل بیماری پھیلانے کا حکم ہوجائے تو اس وقت بیچارہ معصوم انسان کیا کرے گا۔

اب بھی وقت ہے۔۔۔۔۔خدا سے معافی مانگ لینی چاہیئے اس کے بغیر جان نہیں بچے گی۔ہمیں تو معلوم ہے کہ ہم میں اس قدر شدید موذی مرض پیدا کیا گیا ہے کہ اس کا سامنا انسان کے بس میں نہیں ہوگا۔خدا کے پاس بہت خطرناک اور مہلک وائرس بڑی تعداد میں حکم کے انتظار میں ہیں۔تم نے تو خدا کی ناراضگی ابھی دیکھی ہی نہیں۔ ڈرو لوگو! توبہ کرلو، معافی مل جائے گی۔ تم تو بڑی قسمت والے تھے تم پر تو پہلی امتیں رشک کرتی تھیں کہ تم نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے امتی ہو۔ایک بات یاد رکھنا؛ اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو نافرمانوں میں لکھ دیئے جاؤ گے اور نافرمان قوموں پر جس طرح عذاب بھیجا گیا اس کا تمہیں (قرآن کے ذریعے) علم ہے۔ اب بھی وقت ہے۔۔۔معافی مانگ لو۔۔۔توبہ کرلو۔
 

Muhammad Zia Ul Hassan
About the Author: Muhammad Zia Ul Hassan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.