اَحْسِنُوْا اَسْمَآئَکُمْ
اپنے اچھے اچھے نام رکھا کرو۔
(سنن ابوداؤد کتاب الادب باب فی تغییر الاسماء)
اولاد اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جو اس کی رحمت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔
ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد نیک ہو ۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ
اپنی اولاد کو دے سکتا ہو۔ ‘‘ (ترمذی )
والدین بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام کا دیتے ہیں اس لئے چاہئے کہ بچے کا
اچھا نام رکھا جائے۔نام انسان کی شناخت کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور انسان کی
زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔بچے کا حق ہے کہ اس کا بہترین نام تجویز کیا
جائے ۔نام حُسنِ شخصیت پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے اور نام ہی انسان کا
سب سے پہلا تعارف ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم کو سب سے پہلے ناموں کی ہی تعلیم دی تھی۔جانور ذبح
کرتے وقت اﷲ کا نام لیا جائے تو حلال اور غیر اﷲ کا نام لیا جائے تو حرام۔
ہر کام شروع کرنے سے پہلے اﷲ کا نام لینا باعثِ برکت ہے ۔اس سے معلوم ہوا
کہ نام کی معنویت زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے ۔
اچھی عرفیت سے کردار و شخصیت پر اچھا اثر پڑتا ہے اور بری عرفیت سے برا
۔جیسے ابو جہل کی عرفیت (جہالت کا باپ ) نے ساری عمر حلقہ بگوش اسلام ہونے
سے دور رکھا ۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی : اَحْسِنُوْا اَسْمَآئَکُمْ کہ
اپنے اچھے اچھے نام رکھا کرو۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب فی تغییر
الاسماء)
آنحضرت ﷺ نے اچھے ناموں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ انبیاء کے ناموں
جیسے اپنے بچوں کے نام رکھو اور سب سے اچھے نام عبد اﷲ اور عبد الرحمان
ہیں۔‘‘ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب تغییر الاسماء)
تربیتِ اولاد کے لئے بچوں کے اچھے نام رکھنا ضروری ہے۔ خاص طور پر اگر بچوں
کے نام دعائیہ ہوں گے تو جب بھی کوئی ان کو پکارے گا تو ساتھ دعا دے رہا
ہوگا۔ ان دعاؤں کی وجہ سے بچہ نیک ہوتا جائے گا۔ مثلاً مظفر نام کو جب بھی
کوئی پکارے گا اور آواز دے گا تو اس میں یہ دعا ہوگی کہ تو ہمیشہ کامیاب
وکامران ہو۔ ایسا ہی جب کوئی مسرور نام کوپکارے گا تو ساتھ ہی دعا دے رہا
ہوگا کہ تو خوش رہے۔ اور بچے اس نام کی لاج رکھنے کے لئے بھی نیکی اور
بہتری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
بچے کا نام کسی نبی یا صحابی کے نام پر رکھنا چاہئے ورنہ کم ازکم اس کا
خیال رکھنا چاہئے کہ نام کا معنی اچھا ہو ۔تاہم جب کوئی نام کسی نبی یا
صحابی کا ہو تو اس میں معنی کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی
کیونکہ کسی نام کے با سعادت اور بابرکت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی
صحابی کا نام ہے۔
’’حضرت ابو موسیٰ ؓ سے مروی ہے ‘ کہتے ہیں : میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں
اسے لے کر آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپؐ نے اس کا نام ابراہیم رکھا
‘‘۔ (بخاری ۔کتاب العقیقہ )
ایسے نام جن سے کِبر ‘ فخر اور بڑائی کا اظہار ہو ان سے گریز بہتر ہے ۔
کبھی اِترانہ تو اس پر کہ تیرا نام اچھا ہے
وہی اچھا ہے اس دنیا میں جس کا کام اچھا ہے
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم برے نام تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔ تا کہ برے ناموں
کا کوئی بد اثر نہ پڑے۔
(جامع ترمذی ابواب الادب باب ما جاء فی تغییر الاسماء)
ایک شخص کانام حُزن تھا جس کے معنی غم کے ہیں آپؐ نے اس کا نام سہل رکھ دیا
جو آسانی کے معنی دیتا ہے۔ ایک عورت کانام عاصیہ تھا جس میں نافرمانی کا
مفہوم ہے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا یعنی خوبصورت۔ (بخاری) ابن ماجہ کتاب
النکاح
یہ بات اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ نام رکھتے وقت اس کے معنی مد نظر
رکھے جائیں۔
اﷲ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے جو نام رکھنا ہو اس کے شروع میں عبد لگا
کر رکھا جا سکتا ہے ۔
بعض لوگ ستارگان دیکھ کر مثلاً ستارہ عطارد ‘ برج سنبلہ پر نام رکھتے ہیں
۔یہ ٹھیک نہیں ہے ۔
دو مفرد ناموں کو ملا کر ایک نام رکھنا بھی صحیح ہے ۔ مثلاً رابعہ زینت ۔
زرینہ احسان ۔ مدیحہ اقبال۔ بچیوں کے نام رکھتے ہوئے کسی نام کے آخر پر
خاتون۔ آرا ۔ بیگم ۔ سلطانہ ۔ بانو۔ بی بی ۔ خانم لگا سکتے ہیں ۔مثلاً امیر
خاتون ۔ نورین آراء۔ عائشہ بانو ۔
بعض لوگ بچوں کے نام خوبصورت اشیاء کے نام پر رکھتے ہیں ۔ جیسے ۔ قمر ۔ مہر
۔ بدر ۔گلاب ۔شمیم ۔نسیم ۔کوثر وغیرہ اگرچہ یہ نام برے نہیں مگر ان سے
مذہبی تہذیب و اخلاق کی جھلک نظر نہیں آتی ۔البتہ ان مفرد ناموں کو مرکب
کردیا جائے تو حرج نہیں ۔جیسے نسیم احمد ۔کوثر احمد ۔شمیم الدین ۔گلاب محمد
۔
حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے داماد اور اسی مناسبت سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم زُلف تھے۔
آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کا خوب اہتمام فرمایا۔ خاص طور پر اپنے بیٹوں کو
بہادری اور جرأت کے سبق سکھائے۔ اپنے نو بیٹوں کے نام جنگِ بدر اور احد میں
شہید ہونے والے بزرگ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے ناموں پر رکھے، جیسے عبد
اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور جعفررضی اﷲ تعالیٰ عنہ۔
گویا بیٹوں کو ناموں کے ذریعہ ہی خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار
فرما دیا۔
(الطبقات الکبرٰی ،از: محمدبن سعد جلد ۳ ص۱۰۷، دار احیاء التراث العربی
بیروت)
اس طرح کے نام جن میں عبد کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا نام آئے ۔جیسے عبدالغفار
۔عبد الرحیم ۔عبدالستار ۔وغیرہ ایسے نام پکارتے وقت یہ بات خاص طور پر
دھیان میں رہے کہ نام پورا پکارا جائے ۔یعنی عبداﷲ ۔ عبدالرحمن ۔ عبدالرحیم
۔۔۔یہ نہیں کہ صرف رحمن یا رحیم کہہ کر آواز دی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|