اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ
حُسْنًا (البقرہ آیت نمبر ۸۳ ) کہ لوگوں سے اچھی اور بہترین بات کیا کرو ۔
اﷲ تعالیٰ کا بے حد فضل اور احسان ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا تو اس کی
سہولت کے لئے اسے ایسے اعضاء جسمانی سے نوازا جو زندگی گذارنے کے لئے اس کے
ممد و معاون ثابت ہوں مثلاً ہاتھ ، پاؤں، ناک، کان ، زبان اورآنکھ وغیرہ
۔پس شکران ِ نعمت کے طور پرہم پہ واجب ہے کہ ہم اپنے اعضاء کا صحیح موقعہ
اور محل کے مطابق استعمال کریں تا کہ اس دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور اگلے
جہان میں بھی خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے ہوں ۔
زبان اﷲ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اس نعمت کی اصل قدر وہ جانتے ہیں جو
قوت گویائی سے محروم ہیں ۔یہ بظاہر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے مگر ہمارے تمام
جذبات اور احساسات کو بیان کرنے کی طاقت رکھتا ہے ہر ذائقہ کا احساس رکھنے
والا یہ لوتھڑا خود بھی بہت سے ذائقے چھکاتا ہے ۔کڑوا کسیلا ‘ شیریں و
میٹھا‘ طنزیہ و تحقیری ‘ محبت بھر ا ‘ نفرت انگیز سب طرح کے مزے اسی کے
ذریعے ملتے ہیں ۔انسان کے ہر عضو کی حکومت وجود کے کسی ایک خطے میں ہوتی ہے
مگر زبان کی حکومت ساری مملکت وجود پر جاری و ساری ہے ۔
لہجے میں اگر رس ہو تو دو بول بہت ہیں
انساں کو رہتی ہے محبت کی زباں یاد
انسان کی زبان اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔نرم اور پاک زبان کا
استعمال انسان کو معاشرہ میں ہردلعزیز بنادیتا ہے لوگ ایسے شخص سے محبت
کرتے ہیں اس کی محفل اور مجلس کو پسند کرتے ہیں کیونکہ الفاظ کی نسبت لہجے
کا اثر زیادہ ہوتا ہے دنیا میں زیادہ ترجھگڑے لہجے کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔
میں نہیں مانتا کاغذ پر لکھا شجرہ نصب
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں پاک اور نرم زبان کے استعمال کی تلقین
فرمائی۔آنحضو ر ﷺ فرماتے ہیں ۔ صبح ہو تی ہے تو انسان کے سب اعضاء اسکی
(زبان ) کی گو شمالی کر تے ہیں ۔ کہ دیکھ ․․․․ ہما رے بارے میں اﷲ تعا لیٰ
سے ڈر ۔ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ۔ تو سیدھی ہو ئی ۔ تو ہم بھی سید ھے ہیں
اور تو ٹیڑھی ہو ئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہیں ۔ (ریاض الصالحین باب تحریم الفیۃ
والامر )
امّ معبد کی روایت کے مطابق رسول اﷲ ﷺ شیریں بیان تھے۔ آپؐ کی گفتگو کے وقت
ایسے لگتا تھا جیسے کسی مالا کے موتی گررہے ہوں۔
(حالطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص378)
رسول کریم ﷺ نے فرمایا جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے ان میں اکثریت ان لوگوں
کی ہوگی جو اپنی زبان کی کرتوت کی وجہ سے جہنم مین جائیں گے مثلاً جھوٹ بول
دیا غیبت کردی کسی کا دل دکھا دیا کسی کی دل آزاری کی دوسروں کے ساتھ غیبت
میں حصہ لیا کسی کی تکلیف پر خوشی منائی زیادہ باتیں کیں جب یہ گناہ کے کام
کئے تو اس کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلا گیا ۔ (ترمذی ‘ کتاب ا لایمان ‘
باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ ‘ حدیث نمبر ۲۶۱۶)
بول بولو وہی جو میٹھے ہوں
تُند خوؤں کا یوں شکار کرو
گفتگو یُوں کرو کہ پھول جھڑیں
بات حق اور پائیدار کرو
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے اسلام کا حسن
تو یہ ہے کہ بے معنی باتیں ترک کردے۔
(ترمذی ابواب الزہد حدیث نمبر2487)
حضورﷺ نے فرمایا بہترین صدقہ اپنی زبان کی حفاظت کرنا ہے۔ (فردوس الاخبار
دیلمی ،حرف الف)
رسول کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان
محفوظ ر ہیں ۔
پاکیزہ اور شیر یں گفتگو کر نی چاہیے ۔ حد یث میں آتا ہے ۔ پا کیزہ کلمہ
بھی صدقہ ہے اور آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے ۔ (متفق علیہ )
زبان کا وزن ہلکا ہوتا ہے مگر اسے بہت ہی کم لوگ سنبھال پاتے ہیں ۔ایک بزرگ
سے کسی نے پوچھا ۔انسان میں کتنے عیب ہوتے ہیں ۔جواب ملا بے شمار ہیں۔ لیکن
ایک خوبی سب پہ پردہ ڈالتی ہے اور وہ ہے زبان پہ قابو ۔ اسی لئے کہا جاتا
ہے کہ جب عقل کامل ہو جائے تو کلام کم ہو جاتا ہے ۔
تلخ اتنی تھی کہ پینے سے زباں جلتی تھی
زندگی آنکھ کے پانی میں ملا لی میں نے
بعض ایسے انسان جن کی زبان ان کے قابو میں نہیں ہوتی وہ گفتگو کرتے ہوئے
انسانیت کی معراج سے اس قدر گر جاتے ہیں کہ اپنی زبان کی وجہ سے ہی اپنے آپ
کو پستی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ ان کے بارہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی
آنکھیں تو ہیں مگر شاید بینائی نہیں ‘ دل تو ہے مگر احساس نہیں اور یہ دین
اور اخلاقیات کی تعلیمات سے کوسوں دورہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ۔
(المومنو ن آیت نمبر ۳) ترجمہـ:اور وہ لغو با تو ں سے ا عراض کر تے ہیں ۔
زبان کی حفاظت کا تقاضہ ہے کہ انسان غیر ضروری بات چیت اور بحث و مباحثہ سے
پرہیز کرے ۔
خاموشی ہی کو بہترین سمجھنے والا شاعر یوں کہتا ہے۔
آؤ چپ کی زبان میں ‘ زید
اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں
قول مشہور ہے کہ۔ پرندے پنچوں کی وجہ سے ‘ مچھلیاں منہ کی وجہ سے ‘ چوپائے
پاؤں کی وجہ سے اور انسان اپنی زبان کی وجہ سے پھنستے ہیں۔
پہلے تولو پھر بولو کیونکہ کہتے ہیں تلوار کا زخم بھر جاتا ہے لیکن زبان کا
زخم نہیں بھرتا ۔جس طرح کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آسکتا اسی طرح زبان
سے نکلے ہوئے الفاظ واپس نہیں آسکتے ۔
بات اپنی کرے یا پرائی کرے
آدمی سوچ کے لب کشائی کرے
ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ انسان
کے جسم کا بہترین عضو کیا ہے اس نے کہا زبان پھر بادشاہ نے کہا اور بر ا
عضو کیا ہے اس نے کہا زبان بادشاہ حیران ہوا کہا اچھا بھی یہ اور برا بھی
یہ وزیر نے کہا ہاں اگر زبان اچھی ہو تو اس سے اچھا کوئی نہیں اور اگر بری
ہو تو اس سے برا کوئی نہیں کہنے کو یہ ایک کہانی ہے لیکن حقیقت میں ایک
پوری زندگی ہے اگر انسان اس بات پر غور کر لے تو بے شک دنیا و آخرت کی
کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
٭ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ۔
٭ زبان آپ کو مٹھائی بھی کھلا سکتی ہے اور پٹائی بھی ۔
٭ زبان کی لغزش پاؤں کی لغزش سے بہت زیادہ خطر ناک ہے۔
٭ عقل مند سوچ کر بولتا ہے اور بے وقوف بول کر سوچتا ہے ۔
٭ نماز میں قلب کی ‘ مجلس میں زبان کی ‘ غضب میں ہاتھ کی اور دستر خوان پر
شکم کی حفاطت کر۔
٭ جس طرح آگ کا ایک ذرہ عالم کو تباہ کر دیتا ہے اسی طرح ایک برا کلمہ
انسان کو تباہ کر دیتا ہے ۔
٭ زبان اگرچہ تلوار نہیں پر تلوار سے زیادہ تیز ہے ‘ بات اگرچہ تیر نہیں پر
تیر سے زیادہ زخمی کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|