لوگ برصغیر کو بھول گئے شاید،
لوگ مسلمان اہل ایمان کی تاریخ سے شاید لا علم ہیں۔ لیکن لوگوں کو شاید اُس
وقت ادراک ہوگا جب آگ اُن کے اپنے سروں پر برسے گی ، پر افسوس اُس وقت کسی
قسم کی رعایت نہ کی جائے گی، ان کے بزرگ مردوں اور عورتوں کو قتل کیا جائے
گا، بچے غلام بنا لئے جائیں گے، جوان عورتوں اور لڑکیوں سے یہ اپنے عشرت
کدے آباد کریں گے، اور پھر ہو گا کیا چند سر پھرے جہاد اور اجتہاد کرنے
نکلیں گے، لیکن نتیجہ صفر ہوگا :- کیوں-: اُمت بغیر تعلیم کے جانوروں کو
ایک بے ترتیب ہجوم ہوگا جسے جس کا زور آور کا دل چاہے گا اور جب تک چاہے گا
استعمال کرے گا اور پھر انجام گُم نامی کی موت ہوگا یا پھر غلام کسی اور کو
فروخت کردیا جائے گا ہر حال میں زلت اور رسوائی لیکن کیوں؟ لیکن کیوں؟ لیکن
کیوں؟؟؟
ذرا غور کرو، ابھی ہم اُمت سے گر کر ٹوٹ کر قوم ہوئے ہیں۔ اب ہمیں قوم سے
تقسیم کیا جا رہا ہے۔ کبھی قوم پرستی کے نام پر اور کبھی زبان پرستی کے نام
پر اور پھر قوم اور زبان کی بھی تقسیم ہوگی کنبہ اور نسب پرستی کے نام پر
سب کچھ ٹوٹ جائے گا سب کچھ مٹ جائے گا رہے گا تو صرف نام اللہ کا ہاں صرف
اللہ کا نام باقی رہے گا۔
یاد کرو وہ وقت [غزوہ خیبر] اسلام کا ابتدائی زمانہ اہل ایمان میں سے
اکثریت غرباں کی ہے۔ کھانے کو اناج نہیں ، پہننے کو لباس میسر نہیں، جان و
مال کی حفاظت کیلئے ہتھیار نہیں ایسے میں اللہ پاک اپنے نبی اور نبی کی
برکت سے اپنی اُمت کو فتح اور کامیابی عطا فرماتا ہے ، تو اللہ کا نبی مشیت
الہِی سے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُمت کو تعلیم دینا سب سے ضروری ہے اس لیئے
تعلیم کا اہتمام کیا جائے۔ اور تعلیم دینے والے کون ہیں اللہ اور اللہ کے
رسول کے دشمن اُمت کے دشمن۔ اس امر سے یہ ثابت کرنا مقصود کہ تعلیم ہر حال
میں حاصل کرو۔ خواہ حالات کیسے بھی ہوں اور حصول تعلیم کے لئے اُستاد کا
مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں البتہ یہ امر زیادہ بہتر ہے کہ طالب علم کا
نگران صاحب علم اور با عمل ہو یہ سنت کے بھی مطابق ہے جیسا کے نبی کریم نے
اپنے دور میں صحابہ کی نگرانی اور تعلیم فرمائی۔
اگر ہم اپنے آپ کو درست نہیں کریں گے تو اللہ کریم دوسرے لوگوں کو ہماری
جگہ لے آئے گا ۔ ایسے لوگوں کو جو ہم سے بہتر ہوں گے جیسا کہ رب کریم اپنے
احکام میں فرماتا ہے۔ اور محبوب رب کریم عملی نمونہ پیش فرماتے ہیں۔ |