اس سے قبل فقیر ایک کالم اسی
عنوان سے پیش کر چکا ہے جس میں احادیث کریمہ کی روشنی میں یہ بات بیان کی
گئی کہ امت مسلمہ کا شرک جلی میں پڑنے کا کوئی خطرہ نہیں، اب مزید ایک حدیث
اس حوالے سے پیش کی جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو
جام توحید پلایا اس کا خمار کب تک باقی رہے گا؟
عن حذیفہ رضی اللہ عنہ قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم : یدرس
الاسلام کما یدرس و شی الثوب حتی لا یدری ما صیام و لا صدقۃ ولا نسک ، س
یسری علی کتاب اللہ فی لیلۃ فلا یبقی فی الارض منہ ایۃ ، و یبقی طوائف من
الناس الشیخ الکبیر والعجوز الکبیرۃ یقولون ادرکنا اباءنا علی ھذہ الکلمۃ
لا الہ الا اللہ فنحن نقولھا ۔ قال صلۃ بن زفر لحذیفۃ : فما تغنی عنھم لا
الہ الا اللہ و ھم لا یدرون ما صیام و لا صدقۃ و لا نسک؟
فاعرض عنہ حذیفۃ فرددھا علیہ ثلاثا ، کل ذلک یعرض عنہ حذیفۃ ثم اقبل علیہ
فی الثالثتہ فقال: یا صلۃ تنجیھم من النار
بحوالہ مستدرک للحاکم جلد ۵ ص ۶۶۹ حدیث نمبر ۸۵۰۸ ، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر
۴۰۴۹ ، کتاب النہایہ فی الفتن لابن کثیر جلد ۱ ص ۳۰
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے
ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے
گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ نہیں جانا
جائے گا ، روزہ کیا ہے؟ صدقہ کیا ہے؟ اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں
کتاب اللہ غائب ہو جائے گی ، زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی
لوگوں کے کچھ طبقے رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ، ہم نے
اپنے آباء کو اس کلمہ لاالہ الااللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہہ رہے ہیں۔
حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ
صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہو گا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے
گا؟
حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض
کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے
فرمایا، اے صلہ یہ کلمہ ان کو نار جہنم سے نجات دے گا۔
امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
اس حدیث شریف میں جن حالات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات نہیں آئے ہیں
، ابھی تو نمازیوں سے مساجد بھری ہیں ، روزے دار روزے رکھتے ہیں آج کے
حالات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہوں گے جب نماز روزے کا نام بھی
بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہو گا۔ اس وقت کے کمزور
ترین مومن کا کلمہ بھی معتبر ہو گا، چنانچہ آج کے مسلمانوں پر تھوک یعنی
ہول سیل کے لحاظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو
غیر معتبر قرار دے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں
امکان تو خدائی کے جھوٹے دعویٰ کا بھی ہے ۔ معاذ اللہ
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرا دینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور
اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے ، وہ امت سید المرسلین صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کرنے والی ذات وحدہ لاشریک لہ کے بارے میں
شرک کیسے برداشت کر سکتی ہے؟
ویسے بھی جب تک قرآ ن مجید امت کے پاس موجود ہے شرک جلی کا امت میں اگرچہ
امکان ہے مگر پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر امکان تو معاذ اللہ یہ بھی
ہے کہ کوئی الہ ہونے کا دعویٰ کر دے لیکن اس امکان کی بنیاد پر یہ درست
نہیں ہے کہ امت پر یہ الزام لگایا جائے کہ یہ امت خدائی کی دعویدار ہے معاذ
اللہ ایسا اگر کسی نے دعویٰ کیا تو فوراً امت سے نکل جائے گا ایسے ہی شرک
جلی کی امکانی صورت اگر واقع میں پائی گئی تو ایسا نہیں ہو گا وہ امت دعوت
میں بھی رہے اور مشرک بھی ہو بلکہ فوراً امت سے نکل جائے گا، پہلی امتوں
میں جو بدعملی تھی اس کا اس امت میں آجانا معاذ اللہ ایک اور امر ہے مگر
پہلی امتوں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں شرک آنا ہر گز نہیں ہے، ان
امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پاک
ہے، ان امتوں میں بگاڑ آیا تو انبیا ء کرام مبعوث ہوتے رہے لیکن اب کوئی
نبی نہیں آنا ، اور یہ امت آخری امت ہے لہٰذا پہلی امتوں جیسی شرک کی
بیماری اس امت کا مسئلہ نہیں ہے اگر تھوک یعنی ہول سیل کے لحاظ سے اس امت
میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا ، افسوس ہے کچھ
لوگوں کے بقول "آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شرک مسلمانوں میں پایا گیا
ہے"۔۔۔۔۔۔۔الامان والحفیظ
خلاصہ ء کلام یہ کہ یہ امت، امت توحید ہے اور شرک میں پڑنا اس امت کا مسئلہ
نہیں ہے۔
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا، نام و نشاں ہمارا |