بسم اﷲ الرحمن الرحیم
شعبان میں شب برائت منانے والوں میں شیعہ,سنی,(دیوبندی)، (بریلوی) وغیرہ
تقریبا سب ہی شامل ہیں اور اس رات کا سب سے زیادہ اہتمام ہوتا ہے۔گھروں میں
دیے جلائے جاتے ہیں۔میٹھا بانٹا جاتا ہے۔آتشبازی کی جاتی ہے۔ چناچہ بدعات
کا ارتکاب کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے اثبات و جواز کے
لیے آیات قرآنی و احادیث میں تحریف کی جاتی ہے یعنی وہی کام کیا جاتا ہے جس
پر یہودیوں کی پکڑ کی گئی ہے۔
’’کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں‘‘ (سورۃ النساء:46)
یہ لوگ اپنی ایجاد کردہ شب برائت کے تقدس کی اہمیت کے ثبوت کے لیے سورۃ
الدخان کی آیات جن کا صریحا اطلاق لیلۃ القدر پر ہوتا ہے ان کو من گھڑت
روایات کی بنیاد پر شب برائت پر چسپاں کر دیتے ہیں پھر اس باطل موقف و
نظریہ کی تائید و اشاعت کے لیے مضامین و کتابچہ چھاپے اور تقسیم کیے جاتے
ہیں اور اخبارات و جرائد میں خصوصی کالم شائع کیے جاتے ہیں جن میں مختلف
فضائل بتا کر لوگوں کو خلاف سنت کاموں پر اکسایا جاتا ہے۔
اس بارے میں بے سند و بے اصل روایتوں کی بنیاد پر شب برائت کا طومار باندھ
دیا جاتا ہے حالانکہ اس رات کا تو صحیح احادیث میں کوئی تذکرہ ہی نہیں
البتہ صوفیوں کی کتابوں میں اس کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ مولوی حضرات فرماتے
ہیں کہ اس رات کو لیلۃ الردۃ' لیلۃالبارکۃ' لیلۃ الرحمۃ اور لیلۃ العک' کہا
جاتا ہے۔
اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب قرآن کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث میں تو ایسی
کسی رات کا ذکر نہیں ہے جس کے یہ نام ہوں دراصل شب برائت ہی کو معرب کر کے
یہ کار نامہ انجام دیا گیا ہے ورنہ عرب ممالک میں تو اس کا وجود نہ تھا۔
اس رات کا جنم بھومی مجوسیوں کا ملک فارس تھا اور انہوں نے بنو عباس کے دور
میں اقتدار پر تسلط حاصل کرنے کے بعد اپنے قدیم آتش پرستانہ عقائد و رسوم
کو(islamic) کرنے یعنی اسلامی بنانے کی کوشش کی تھی اور اس رات آتش بازی کر
کے انہوں نے اپنی دیرینہ خواہش بھی پوری کر لی آتش بازی ایسا شیطانی مزموم
فعل ہے کہ تمام سلیم الفطرت افراد اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ ایرانی
مجوسی جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ایک علیحدہ فرقہ بنا لیا ہے اس فعل
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اور اس س پہ بھی ستم ظریفی کہ ہمارے ملک میں
کچھ فرقہ پرست اس پہ بڑی دلیری سے عمل درآمد کرتے ہیں۔ساری رات آتش بازی کر
کے خلافِ سنت تو جاتے ہی ہیں ساتھ ہی دوسروں کا سکون بھی برباد کرتے ہیں۔
یہ لوگ اس دن اپنے خود ساختہ امام کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں کراچی میں
نیٹی جیٹی کے پل پر اس رات اس فرقہ کے لوگوں کا اژدھام ہوتا ہے وہ کاغذ کی
پرچیوں پر اپنی عرضیاں لکھ کر آٹے میں لپیٹ کر سمندر میں ڈال دیتے ہیں جوان
کے مزعومہ عقائد کے مطابق اُس,روپوش امام تک پہنچ جاتیں ہیں اور وہ گویا ان
کی مرادوں کو پورا کر دیتے ہیں جو کہ دین کے نام پر توہم پرستی کی بدترین
شکل ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے ’’شب‘‘ (رات) عربی کا لفظ نہیں بلکہ یہ فارسی کا لفظ
ہے۔ اسی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’شب برا?ت‘‘ کا تعلق عربی یعنی
اسلام سے نہیں۔
شب برائت کو یہ فرقہ پرست قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بقول
یہ لیلتہ القدر ہے، اس رات روحیں اور فرشتے زمین کی طرف نازل ہوتے ہیں اور
اس رات مخلوق کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس بارے میں سورہ القدر کا مطالعہ
کرتے ہیں:
’’ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا
ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح القدس اترتے ہیں
اپنے رب کے حکم سے، ہر امر کے لیے۔ سراسر سلامتی ہے یہ (رات طلوع) فجر
تک۔‘‘
’’ہم نے اسے کو شب قدر میں نازل کیا‘‘یہاں اﷲ تعالیٰ قرآن کے نزول کا ذکر
فرما رہا ہے۔ سورہ بقرہ میں بتایا گیا:
(البقرہ:185)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘
واضح ہوا کہ یہ ماہ رمضان کا معاملہ ہے جبکہ خود ساختہ شب برا?ت ماہ شعبان
میں منائی جاتی ہے۔ اسی طرح سورہ دخان کی آیت بھی پیش کی جاتی ہے:
’’کہ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا بیشک ہم تو ڈرانے والے ہیں۔
اسی رات میں تمام حکمت کے کاموں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘‘
یہاں بھی معاملہ قرآن مجید کے نزول کا ہے، یعنی یہ وہی رات ہے جو ماہ رمضان
میں آتی ہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ ان طاق راتوں
میں اﷲ کی کثرت سے عبادت کیا کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ کس طرح اسے ایک خود
ساختہ رات سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی۔
قرآن میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس رات حکمت کے فیصلے کئے جاتے ہیں، لیکن
فرقہ پرست علما نے لیلتہ القدر کے بارے میں بیان شدہ اس بات کو اپنی من
گھڑت شب برا?ت کی طرف پھیر دیا۔ یعنی جانتے سب کچھ ہیں لیکن فرقے کے عقیدے
کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹ گھڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اسی طرح اسی رات
میں آسمان سے دنیا کی طرف فرشتے اور جبریل کے بھیجے جانے کا بھی ذکر ہے
لیکن اسے بھی اس من گھڑت رات سے وابستہ کردیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس
رات مرنے والوں کی روحیں اس دنیا اور اپنے گھروں کی طرف آتی ہیں۔ یہ قرآن و
حدیث کا کھلا انکار ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے (تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے
واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں،
(اﷲ تعالی فرماتا ہے) ہرگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے،
اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک‘‘
(الزمر: 42)
’’اور روک لیتا ہے اس کی روح جس پر موت کا فیصلہ ہو جائے‘‘۔
(یسین:31)
’’وہ (مرنے والے)ان (دنیا والوں)کی طرف (کبھی) نہیں لوٹ سکتے''
’’پھر تم قیامت کے دن ہی اٹھائے جاؤ گے ''ُ
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک اڑنے والے جسم میں
جنت کے درخت سیوابستہ رہتی ہے یہاں تک کہ اﷲ جل جلالہ پھر اس کو لوٹا دے گا
اس کے بدن کی طرف اٹھائے جانے والے دن‘‘۔
(موطا امام مالک، کتاب الجنائز، باب: جامع الجنائز)
اﷲ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ مرنے والے کی روح قیامت سے پہلے اس دنیا میں
نہیں آئے گی، یعنی ان کا بیان کردہ عقیدہ جھوٹا اور خلاف قرآن ہے۔ اس کے
لئے یہ لوگ سور القدر کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں:
کہ اس رات میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں۔
یہاں جو ’’روح‘‘ کہا گیا ہے یہ جبریل امین کے لئے ہے، جیسا کہ قرآن کی
سور ہ النحل میں ہے کہ
’’کہہ دیجیے کہ اس قرآن کو روح القدس (جبریل)نے تمہارے رب کی جانب سے حق کے
ساتھ اتارا ہے‘‘۔
(نحل:102)
’’اس (قرآن)کو امانت دار فرشتہ
(جبریل)لے کر اترا ہے‘‘۔
(الشعراء:193)
’’جس دن روح (جبریل)اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے‘‘۔
(النباء: 38)
واضح ہوا کہ یہاں فرشتوں اور خاص فرشتے جبریل کے نازل ہونے کا ذکر ہے، فوت
شدہ افراد کی روحیں نازل ہونے کا نہیں۔
شب برائت کا اسلام میں کوئی وجود نہیں۔کیونکہ ایسی رات جو بدعات سے بھری
ہو، جس میں ایسے عقائد کا اطلاق کیا جائے جو قرآن و حدیث کا انکار ہوں
توکھلم کھلا دین سے بغاوت ہے۔
اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔اور دین کو سمجھنے کی ہمت عطا کرے۔ آمین۔
|