ہم سب جانتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر کسی قسم کی ہنگامی
صورتحال یا بھگدڑجہاں عمومی معاشرت میں بگاڑ پیدا کرتی ہے اور لوگوں کو
اپنی روز مرہ روٹین کے برعکس کچھ فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہے وہیں اسی
معاشرے میں موجود منفی اقدار کے حامل حزب الشیطن بھی اپنے مقاصد کے حصول
کےلیے متحرک ہو جاتے ہیں ۔ یہ منفی عناصر ایک سادہ سی مثال یعنی ناجائز
منافع خوروں یا ذخیرہ اندوزوں کی صورت میں بھی سمجھے جا سکتے ہیں یا پھر ان
لٹیروں اور ڈاکوؤں کی مثال سے بھی جو قدرتی و ناگہانی آفات کے نتیجے میں
تباہ حالی کا شکا ر عمارتوں میں اور انسانو ں کے پاس موجود بچے کھچے وسائل
دبوچنے میں لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح کی مثال خدا اور مذہب سے منکر اُن افراد
کی ہے جنہوں نے ہر صورت افراد کے مذہبی فلسفے پر حملہ آور ہونا ہوتا ہے اور
بالکل شیطان کی مانند مخلوق کو مصیبت و ابتلاء میں مبتلا دیکھ کر ان کے
ایمان اور ایقان پر نقب زنی کرنے پہنچ جاتے ہیں ۔
کورونا وائرس سے متاثرہ موجودہ دنیا میں جہاں ابھی کورونا سے تمام عالمی ،
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر قومیں محو جنگ ہیں وہاں بے شمار سیاسی ، معاشی
اور سماجی اصولوں میں ترجیحات کی تبدیلی واضح طور پر محسوس کیے جانے کے
ساتھ ساتھ ایک متوازی موضوع مذہب کے حوالے سے بھی زیر بحث ہے کہ مذہب موجود
ہ دنیا میں عالمی سیاست اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب کر سکا ہے۔ اسی بحث
کے تناظر میں پہلے سے باغی منکرین خدا نے تو فوری طور پر اپنی اس رائے کا
اظہار کر دیا ہے کہ چونکہ موجودہ وقت میں دنیا مکمل طور پر انسانی عقل اور
سائنس کی محتاج دکھائی دیتی ہے اور کورونا وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے
اہم حفاظتی تدابیر کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹ بھی مذہبی طبقے کی جانب سے
دیکھنے میں آئی ہے لہذا مذہب کا پتہ تو یکسر کاٹ دینا چاہیے ۔ انکی نظروں
میں مذہب مذکورہ بالا صورتحال میں فائدہ نہیں بلکہ نقصان دیتا دکھائی دے
رہاہے۔
انکے موقف سے قطع نظر اگر حفاظتی تدابیر کی راہ میں رکاوٹ کا معاشی پہلو
دیکھا جائے تو وہ مذہب کی نسبت کافی وسیع پیمانے پر اس رکاوٹ کا سبب نظر
آئیگا جہاں تمام دنیا میں موجود غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے
افراد اور خاندان کسی طور پر اپنے اپنے شہروں اور ملکوں میں لاک ڈاؤن جیسی
پابندی کو برداشت کرنے کے اہل نا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کورونا کیسز کی
تعداد اور ان کیسز کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد کا موازنہ سیکولر
اور جمہوری ریاستوں اور نیم جمہوری یا مذہبی ریاستوں کے تناظر میں کیا جائے
تو مذہب کو تفریق کرنے والے ممالک قطعی طور پر اس تباہی سے محفوظ نظر نہیں
آتے بلکہ ایسے ممالک میں کورونا سے متاثرہ افراد اور انکی اموات کی تعداد
کے اعداد و شمار بہر کیف آپ کو زیادہ ہی دکھائی دیں گے۔ یہ ویسے ہی کوئی
پیمانہ نہیں ہے۔ منکرین خدا یا ملحد تو خدا دشمنی اور مذہب سے اوازی کی
بنیاد پر ایسی فضول لا یعنی منطق وضع کر لیتے ہیں لیکن ایک سمجھدار انسان
کبھی بھی مذہب اور مصیبت یا آسانی کو relate نہیں کرتا کیونکہ خدا کے اصول
و قوانین پر یقین رکھنے والا یہ جانتا ہے خدا نے دنیا وی نظام چند ٹھوس
اصولوں کی بنیاد پر استوار کر رکھا ہے لہذا اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی
خدا کو مانتا ہے یا نہیں مانتا، وہ اصول کسی کےلیے تبدیل نہیں ہونگے ۔
اب آجاتے ہیں اس بات کی طرف اگر سیکولر اور مذہبی حدود و قیود سے بالا
ریاستوں اور ممالک میں کورونا وائرس سے ہونے والی تباہی ان کے سیاسی اسٹیٹس
کی بدولت کم یا ختم نہیں ہوئی تو مذہبی تعلیمات اور ہدایات کی پابندی کس حد
تک خاص طور پر کورونا وائرس جیسی وباء سے بچنے کےلیے کارگر ثابت ہو سکتی
ہیں؟ ان تعلیمات اور ہدایات کا بعینہ پریکٹس ہونا ایک الگ موضوع ہے ،
دیکھنا صرف یہ ہے کہ کورونا کے حوالے سے اخذ کردہ حفاظتی تدابیر کو عمومی
ضمن میں مذہب کیسے تلقین کرتا ہے۔اگرچہ ہمیں تمام الہامی مذاہب میں مندرجہ
ذیل پوائنٹس پر مشترکہ ترغیب کسی نا کسی حد تک دیکھنے کو ملے گی لیکن ہم
اگر محض مذہب اسلام کو کاملیت کا درجہ دیتے ہوئے بحث کریں تو یہ بات زیادہ
آسان ہو جائیگی۔کورونا کے حوالے سے تمام تر حفاظتی تدابیر آپ بارہا سن چکے
ہیں ، اب دیکھتے ہیں کہ یہ سب تدابیر مذہب اسلام نے پہلے سے کس انداز میں
بیان کی ہیں؟
1۔ صفائی ، ستھرائی ، پاکیزگی
اسلام صفائی اور طہارت کو ایمان کا نصف حصہ قرار دیتا ہے ۔قرآن کریم میں
سورۃ توبہ (آیت 8) میں اللہ تعالی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے والے لوگوں
کو پسند فرمانے کا اعادہ کرتا ہے اسی طرح مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث"الطہور
الشطر الایمان " اس حوالے سے آپ بارہا سن چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ مذہب
صفائی اور پاکیزگی کو کس طرح درجہ بدرجہ ڈیفائن کرتا ہے۔ یہ صفائی اور
پاکیزگی کے الگ الگ اصول وضع کرتا ہے جس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں
کےلیے ہدایت کے گوہر دستیاب ہیں کہ ایک صحت مندزندگی گزارنےکےلیے صفائی کے
بنیادی اصول کیا ہونے چاہیے ہیں اور ایک عبادت گزار شخص کی حیثیت سے زندگی
گزارنے کے لیے پاکیزگی اورصفائی کے کن اصولوں پر عمل کیا جانا چاہیے۔ اب
اسی صفائی ستھرائی کی اہمیت کا ادراک دنیا میں صحت سے متعلقہ عالمی اداروں
کو یوں ہوا کہ ہاتھ اور چہرے کے مسلسل دھونے اورانہیں صاف رکھنے کی تلقین
کورونا وائرس سے بچاؤ کی بنیادی تدبیر کے طور پر سامنے آئی۔
2۔ پاک ، ہلال اور متوازن غذا
کورونا وائرس کی ویکسین کی عدم دستیابی نے جہاں لوگوں کو قدرتی نظام مدافعت
کے حوالے سے educate کیا ہے وہیں پوری دنیا کو اس حقیقت پر بھی متفق کر لیا
ہے کہ زمین پر موجودنباتات اور حیوانات کی مخصوص اقسام ہی انسانی خوراک
کےلیے موزوں ہیں اور سانپ اور چمگاڈر سمیت دیگر حرام جانوروں کو انسانی
خوراک کے طور پر استعمال کرنے والے چائنیز بھی اس اعتراض کی زد میں ہیں کہ
وہ اس اصول سے بے بہرہ رہنے کی وجہ سے حالیہ وباء کی زد میں آئے ۔ جبکہ
اسلام اپنے پیروکاروں کو سختی سے اس معاملے میں سورۃ بقرۃ(آیت 168) میں
ہدایت دیتا ہے کہ زمین میں موجود ہلال اور پاکیزہ اشیاء کو اپنی خوراک بناؤ
اور شیطان کے حکم پر نا چلوکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ سادہ سی بات ہے،
خالق انسانی فطرت سے سو فیصد واقف ہے ۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ اس انسان کےلیے
کیا شے مفید ہے اور کیا نقصان دہ اور اسی علم کی بنیاد پر وہ یہ ہدایات وضع
کرتا ہے۔
3۔ موجودہ حالات میں سوشل ڈسٹینسنگ اور اسکے نتائج سے نمٹنے کےلیے بہترین
حکمت عملی
ایک بات تو لازمی طور پر ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام کسی بھی انسانی
جان پر کسی انفرادی حیثیت میں قولی ، فعلی یا عملی عبادت کو کسی قسم کی
کوئی ترجیح نہیں دیتا۔ حتی کہ حرم اللہ اور کعبۃ اللہ تک پر انسانی جان کی
فوقیت پر مبنی تمثیلی بیانات بیشتر تعداد میں موجود ہیں ۔ لہذا چند افراد
کی ضد اور پریکٹس کو ایک پورے نظریے اور تمام مسلمانوں پر جرنیلائز نہیں کی
جا سکتا۔ نبی اکرم ﷺ سے بھی ایسے کئی واقعات منسوب ہیں جن میں کسی بھی
ناگہانی آفت، وباء یا غیر معمولی صورتحال مثلاآندھی طوفان بارش وغیرہ کی
صورت میں باقاعدہ مسجد سے اعلانات کروا کر لوگوں کو گھروں میں نماز ادا
کرنے کی تاکید کی گئی۔ اسی طرح احادیث کی مستند کتاب "بخاری " میں ایسی
متعدد احادیث موجود ہیں جو مخصوص اور عمومی حالات دونوں میں مسلمانوں کو
گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت بھی دیتی ہیں بلکہ یہاں تک فرمایا گیا کہ
اپنی نمازوں کے کچھ حصے گھروں کےلیے مخصوص کر کے گھروں کو قبرستان بننے سے
بچاؤ۔
اب ایک وباء کی صورت میں گھروں تک محصور ہو جانے کے ساتھ ہی افراد کی معاشی
صورتحال کا دگرگوں ہونا عام بات ہے۔ دین اسلام خصوصا اور تمام مذاہب عموما
اس ضمن میں مستحق افراد کی ذمہ داری کسی بھی معاشرے کے دوسرے افراد پر عائد
کرتے ہیں۔ مثلا اسلام میں فریضہ زکوۃ سے لیکرصدقہ، خیرات، سخاوت، حسن
اخلاق، انسانیت ، صلہ رحمی اور خدمت کی بے شمار جہتیں صوابدیدی عبادات کی
مد میں وہ کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں جو کسی طور معاشرے میں غربت،
فاقے اور افلاس کو پنپنے نہیں دیتیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی کسی بھی
مذہب سے متعلق ہو اور وہ معاشرے میں ایسی ہنگامی صورتحال پر اپنے وسائل
اپنے تک محدود کر لے ۔ یہ مذہب ہی ہے جو کہیں خوف خدا کی وجہ سے ، کہیں موت
کے بعد والی زندگی کی آسانیوں کی تمنا کی وجہ سے تو کہیں خدا کی محبت میں
سرشاری کے جذبے کی وجہ سے امراء میں جذبہ سخاوت پیدا کرتا ہے اسے دوام
بخشتا ہے اور غرباء کے لیے اسباب پیدا کرتا ہے۔ پھراسلام؟ جس میں ہنگامی
صورتحال ایک طرف، عام حالات میں بھی مسلمانوں کو ہمسایوں کے بے شمار حقوق
کا ذمہ دار بنایا جاتا ہے اور غریب ، بے کس ، بے سہاراؤں کے حالات زندگی سے
بے خبر رہنے پر باز پرس کی ایسی خبر دی جاتی ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
کوئی شخص خود تو مرغ مسلم سے لطف انداز ہو ، خود تو پیٹ بھر کر اعناج تناول
کرے لیکن بھوکوں کو بھول جائے، بے آسراؤں کو بھول جائے۔
لہٰذا یہاں بھی مذہب ایک بہترین طریق ہے جو انسانیت کو سلوگن بنانے والوں
کو ہضم نہیں ہوتا ۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ مذہب سے عوام کو متنفر کرنے والے
اور ذرا ذرا سی بات پر موم بتیاں جلائے سڑکوں پر دندنانے والے انسانیت کے
منافق علمبردار جب کورونا کے خوف سے ہاتھ ، چہرے ، جسم لپیٹے گھروں کے اندر
موجود تھےتو زندگی اور موت کے مالک رب کے ماننے والے، موت اور بیماری کے
خوف سے بے نیاز دکھی انسانیت کی دادرسی کےلیے سروں پر کفن باندھے کہیں
رضاکاروں، کہیں انتظامیہ ، کہیں ڈاکٹرز اور کہیں سماجی کارکنوں کی صورت میں
اصل جنگ لڑ رہے تھے۔
اب ان چیدہ اور اہم نقاط کے علاوہ بھی مذہب کسی طور آپ کو ان احتیاطی
تدابیر سے ٹکراتا نظر نہیں آئیگا بلکہ بہت پہلے سے انہیں ہدایات کا اعادہ
کرتا دکھائی دے گا۔ مثلامسلم شریف اور مسند امام احمد بن حنبل کے مطابق
فرمان رسول ہے کہ "ہر بیماری کےلیے ایک علاج موجود ہے، اور جب کسی بیماری
کےلیے درست اعلاج تجویز کر لیا جائے تو اللہ کی رضا سے شفاء بھی میسر آجاتی
ہے"۔ اسی طرح کسی ایسے شخص کوملنے یا چھونے سے گریز کرنا جسے وبائی مرض نے
اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو، اس کی مثال بھی آپ لوگوں نے ان احادیث کی صورت
میں متعدد بار سنی ہو گی کہ رسول اللہ ﷺ نے وباء والے علاقے کو چھوڑنے اور
اسکی طرف سفر کرنے سے منع فرمایا، حتی کہ کسی ایسی وباء میں مبتلاء فرد کے
قبول اسلام کے موقع پر بھی اسکے ہاتھ چھوئے بغیر اسے بیعت کیا۔ انتظامی
امور کی بات کی جائے تو انتظامی یونٹس یعنی شہروں کے بے مہار پھیلاؤ سے منع
کیا اور چھوٹے شہر آباد کرنے کی تلقین کی گئی تاکہ انتظامی امور کے ساتھ
ساتھ قدرتی اور غیر قدرتی وسائل کی utilization کا پراسیس آسانی سے طے
پاسکے۔
غرض یہ کہ اس تناظر میں آپ کیسی ہی جدید تدبیر پر تحقیق کر کےدیکھ لیں مذہب
خاص کر اسلام نے اس حوالے سے کچھ بنیادی Code of Conductضرور وضع کر رکھا
ہوگا اور اس کوڈ آف کنڈیکٹ میں آپ کو Reaction سے زیادہ Pro-activeness
دکھائی دیگی ۔
لہذا ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ہر صورت اس بات کے حوالے سے پر
اعتماد رہنا ہے کہ مذہب کو ایسی صورتحال میں بھی تنقید کا نشانہ بنانے
والوں کی شناخت کرتے ہوئے ہمیں مذہب سے دور جانے کی بجائے اس کے مزید نزدیک
ہونے کی ضرورت ہے۔ بلکہ جس مدعے کو یہ لوگ اپناتے ہوئے غیر فطری معاشرتی
نظام یا Man Made Social System کی ترغیب و اشاعت کرتے ہیں اسی مدعے کو
بنیاد بناتے ہوئے ان لوگوں کو مذہب پریکٹس کروانا چاہیے ۔ حالانکہ مذہب تو
"لا اکراہ فی الدین " کی صدا دیتا ہے اور دین میں جبر کرنے سے منع کرتا ہے
لیکن انسانیت کی مجموعی فلاح اور بقا کےلیے یہ بھی ضروری ہے مسائل کو
باربار نیا نام دینے اور انکے لیے احتیاطی تدابیر ڈھونڈ ڈھونڈ کروقت ضائع
کرنے کی بجائے خالق لم یزل کے وضع کردہ اصول اور قوانین کو اپنایا جائے اور
دنیا کو زندگی گزارنے کےلیے ایک پر امن اور خوبصورت جگہ بنایا جا سکے ۔ |