قومی شاہراہیں قومی مزاج کی ترجمانی اور عکاسی کرتی ہیں۔
اگر آپ کراچی کے رہائشی ہیں یا کافی عرصہ سے اس شہر میں رہ رہے ہیں تو ضرور
آپ کا واسطہ اس شہر کی دیواروں پر لکھی اشتہارات اور تحریروں سے پڑا ہوگا۔
کہتے ہیں جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ مطلب طلب اور رسد کا فارمولا۔ تو ہم بات
کر رہے تھے ہمارے شہر کی رنگ برنگی دیواروں کے بارے میں۔ آئیے ان میں سے
چند تحریروں پر کچھ روشنی ڈالیں۔
محبوب آپ کے قدموں میں:
یہ تحریر چلا چلا کے کہ رہی ہے کہ ایک بڑی تعداد اس شہر میں ایسے لوگوں کی
ہے جو اپنے ازدواجی تعلقات استوار کرنے کے لئے عاملین حضرات کی خدمات حاصل
کرتے ہیں اور جسے محبوب سمجھتے ہیں اسے قدموں تلے رکھنے کی بات بھی کرتے
ہیں۔
کمزور جسم کو خوبصورت اور موٹا بنائیں:
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ موٹاپا بذات خود ایک بیماری ہے اور یہاں
عوام الناس کو اس بیماری کو اپنانے کی دعوت معہ قیمت کے دی جارہی ہے اور
لوگ دھڑا دھڑ اس یک نہ شد دو شد کے جال میں بلرضا پھنس بھی رہے ہیں۔
فلاں فلاں ابٹن کریم:
میں نے قصداً فلاں فلاں لکھا ہے اور آپ بہتر جانتے ہیں کہ کتنے ناموں سے
رنگ گورا کرنے والی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ خیر ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ
چند دنوں میں رنگ گورا۔ تو گویا اب سارے مسائل حل ہو چکے ہیں اور بس کالا
یا سانولا رنگ ہی باقی ہے ہماری ترقی کی راہ میں۔
صرف تین مہینے میں انگلش فر فر بولنا سیکھیں:
یہ تحریر نہ صرف ہماری غلام ابن غلام ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یہ بھی
ظاہر کرتی ہے کہ ہم من حیث القوم ایک عجلت پسند اور جلد باز قسم کے لوگ ہیں۔
یہاں تھوکنا یا کچھرا پھینکنا منع ہے:
اس تحریر کے عین نیچے لوگ تھوکنے اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کو اپنا فرض سمجھتے
ہیں اور اگر سر دست کچھرا میسر نہ ہو تو کم از کم تھوک کر اپنے اس فرض سے
سبکدوش ہو جاتے ہیں۔
یہاں پیشاب کرنا منع ہے:
عام طور پر اس عبارت کے نیچے آپ کو کچھ لوگ اکھڑوں بیٹھ کر اس حکم کی دھڑلے
سے خلاف ورزی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
گنجے پن کا خاتمہ:
یہ اشتہار زیادہ تر ان مرد حضرات کے لئے ہوتا ہے جو پچاس ٹوٹکے آزما چکے
ہیں اور وافر مقدار میں اپنی محنت کی کمائی اور بالوں سے بھی ہاتھ دو چکے
ہیں اور قریب الگنج ہیں۔ مگر پھر بھی ایک بار پھر اس امید پر کہ اس اجھڑے
چمن میں بہار آنے، آزمائیں گے ضرور۔ ان میں متمول طبقہ جدید ہیر ٹرانسپلانٹ
کی طرف بھی رجوع کرتا ہے۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
لوٹ مار مونٹیسری:
تعلیم جو کہ بنیادی طور پر ایک حق کی حیثیت رکھتا ہے ہمارے ہاں ایک
مراعت ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی مخلوق کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔
ماہانہ ٹیوشن فیس تو دور کی بات ہے داخلہ فیس کا سنتے ہی آدمی اختلاج قلب
کا شکار ہو سکتا ہے۔
پھر آپ کو بڑی تعداد میں پوشیدہ زنانہ اور مردانہ بیماریوں کے اشتہارات سے
واسطہ پڑتا ہے جو ببانگ دہل، ڈھنکے کی چوٹ پر عوام الناس کے ہر بات کو صیغہ
راز میں رکھنے کا دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک کھلا تضاد
ہے۔
خیر، ان اشتہارات کی فہرست بھی ہماری قومی مسائل کی طرح طویل ہے۔
|