جب بھی ملک میں مسلمانوں کے تئیں سنگین حالات پیدا ہوتے
ہیں تواس وقت مسلمانوں کی جانب سے ایک لہر پیدا ہوتی ہے اوراس لہر میں
مسلمانوں کا خیال ہوتا ہے کہ مسلمان اپنی تائید کیلئے ایک ایسا میڈیا ہائوس
قائم کریں جو حقائق کی ترجمانی کرے۔ اس خیال کو لیکر اکثر لوگوں کے درمیان
بحث ومباحثے چلتے ہیں، مالدار لوگ نامور صحافیوں کو رجوع کرتے ہیں اوراسطرح
سے ان سے معلومات حاصل کرتے ہیں جیسا کہ یہ لوگ کوٹیشن لیکر اگلے ہی دن ٹی
وی چیانل لانچ کرنے جارہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک کم وبیش ہر مذہب
وذات کے لوگوں کے پاس ایک قومی سطح کا میڈیا ہائوس موجود ہے سوائے مسلمانوں
کے ، مسلمانوں نے کبھی بھی اس جانب توجہ ہی نہیں دی ہے اوراگر توجہ دی بھی
ہے تو انہوں نے اردو اخبارات عمل میں لائے اس میں بھی صحافتی اقدار کو
زیادہ ترجیح دینے کے بجائے مذہبی خیالات کی عکاسی کو ترجیح دی گئی ہے۔ ہم
یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اخبارات میں مذاہب کے تعلیمات کو ترجیح دی جائے
بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اخبارات یا میڈیا کو اس کے اصولوں کے تحت ہی چلایا
جائے۔ کچھ آگے آکر دیکھتے ہیں تو مسلمانوں نے قدم قدم پہ ویب پورٹلس
بنالئے ہیں اوربعض لوگ ویب چیانل کے ذریعہ سے اپنے افکار کی تشہیر کو ترجیح
دی ہے۔ جب بھی میڈیا ہائوس بنانے کیلئے صحافی اورمیڈیا سے جڑے ہوئے لوگ
سامنے آئے ہیں ان لوگوں کو مالی امداد سے نوازنے والے لوگ کم ملے ہیں بلکہ
مشورے اور تجاویز دینے والے لوگ کثرت سے ملے ہیں۔ جتنے مشورے ہندوستانی
مسلمانوں نے میڈیا ہائوس کی تشکیل کیلئے صحافیوں کو دیتے آئے ہیں اگر ان
مشوروں کے ساتھ سو۔سو روپئے کے نوٹ بھی ساتھ میں رکھ دیتے تو آج میڈیا
ہائوس بن چکا ہوتا۔ میڈیا ہائوس کی فکر لے کر ہندوستان کے ایک مشہور صحافی
یوسف انصاری،مشرف عالم ذوقی، عنایت اللہ گوائی، عبدالسلام پوتیگےاور خود
میں نے کئی لوگوں سے ملاقاتیں کی،تجاویز رکھیں، نفع اورنقصانات کے معاملے
سمجھائے، ضرورت تو بتایا، حالات کی پیچیدگی کو ظاہر کیا، باوجود اسکے لوگوں
کی طرف سے قیمتی مشورے ملے اورگھر کی مرغی دال برابر جیسے برتائو کئے۔ مگر
حاصل کچھ بھی نہیں ہوا ، نہ ہی میڈیا ہائوس بن پایا۔یوسف انصاری جو کسی دور
میں Zee newsکے قابل ترین صحافیوں میں شمار ہوا کرتے تھےانکا کہنا ہے کہ
جناب دہلی جیسے شہر میں ارب پتیوں کی کوئی کمی نہیں اگر وہ چاہیں تو ہر
علاقے میں نیوز چیانل بناسکتے ہیں لیکن ہر کسی کو نفع اورپہچان چاہئے۔ ہم
نے بھی جن لوگوں سے گفتگو کی ہے تو انمیں زیادہ تر لوگوں کی سوچ یہی ہوتی
ہے کہ ہمیں کیا عہدہ ملے گا ، ہمیں کیا فائدہ ملےگااور ہماری پہچان وہاں
کیا ہوگی۔ آج ہندوستان کے اے بی پی، انڈیا ٹوڈے، ریبپلک ، ایشاء نیوز
نیٹروک جیسی میڈیا کمپنیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو انکے مالکان کا دور دور
تک پتہ نہیں چلے گا لیکن وہی معمولی سا اردو اخبار جو آپ کے درمیان ہو
اسکے مالک کا نام آپ آسانی سے جانتے ہوںگے۔ کیونکہ ہمارے درمیان جو
اخبارات پائے جاتے ہیں وہ صحافتی بنیادوں پر نہیں بلکہ مالکانہ بنیادوں پر
بنے ہوتے ہیں، جب تک مالک کو اخبار کی ضرورت رہے گی اس وقت تک اخبار چلتا
رہے گا، پھر جیسے ہی اخبار کی ضرورت مالک کو نہیں ہوگی اسکے بعداخبار بھی
اولڈ ایج ہوم میں چلا جائے گا۔ آج میڈیا ہائوس کو قائم کرنے یا بنانے
کیلئے جو لوگ سوچ رہے ہیں انہیں اب سوچ بند کردینا چاہئے بلکہ عملی طور پر
میدان میں اترنا چاہئے، کیونکہ ملت اسلامیہ 70 سالوں سے سوچتی ہی آئی ہے
اورجو لوگ زندگی میں کچھ نہیں کرپائے وہ مشورے دیتے رہے ہیں۔ بعض لوگ ایسے
بھی ہیں جو کچھ کرنے کا مقصد لے کر میدان میں تو اترے لیکن اُمت کو لوٹ کر
اپنی ذاتی ملکیت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ الزام صرف انفرادی طورپر لاگو
نہیں ہوتے بلکہ تنظیموں اوراداروں پر بھی نافذ ہوتے ہیں۔ جمعیۃ العلماء ہند
جو ہندوستان کی سب سے طاقتور مسلم جماعت مانی جاتی ہیں اوراسکے اراکین کی
تعداد کروڑوں میں بتائی جاتی ہے ۔ اگر ایسی تنظیمیں بھی آگے آجاتی ہیں تو
یقیناً میڈیا کا بیڑا پار ہوجائےگا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان تنظیموں کے
ذریعہ سے اردو اخبارات میںمفت کی تشہیر کی طلب کے علاوہ اخبارات کی بقاء
کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ آدھے صفحہ کی خبر کی توقع تو یہ لوگ کرتے
ہیں لیکن آدھے صفحہ کا اشتہار دینا انکے لئے گنوارا نہیں، جلسے کے اسٹیج
کیلئے 2 لاکھ روپئے خرچ کرنا انکی شان ہے لیکن انکی شان کو لوگوں کے درمیان
پہنچانے والے اخبارات کےلئے اشتہارات دینا انہیں منظور نہیں، ایسے میں بھلا
ان تنظیموں سے امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ اخبارات انہیں اپنی قوم کا درجہ
دیتے ہیں لیکن یہی قوم اخبارات کو کبھی اپنا نہیں مانتی، اس لئے تنظیموں
اوراداروں سے میڈیا ہائوس کی توقع کرنا فضول بات ہے اب انفرادی طور پر
لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔
|