انسان پر مختلف ادوار میں بڑی بڑی آزمائشیں اور ابتلائیں
آئی ہیں اور اس نے بڑی جرات سے ان کا سامنا کیا ہے ۔زلزلے ،بارشیں ، آندھیا
ں ، سیلاب ، جنگیں اور وبائیں انسانی جانوں پر وبال کی صورت میں نازل ہوتی
رہی ہیں جن سے انسان ہمیشہ بغل گیر ہو تے رہے ہیں لیکن انسانی عزم اور اور
استقلال پر کبھی ضعف نہیں آیا ۔ما لتھس کا نظریہ آبادی آفاتِ سماوی و ارضی
کی وجہ سے آبادی کو ایک خاص تناسب سے بڑھنے پر روک لگانے کا جو جواز مہیا
کرتا ہے شائد وہ اس دور میں درست ثابت ہو رہا ہے۔ ابھی تو کل کی بات ہے کہ
اکتوبر ۲۰۰۵ کے زلزلہ میں لاکھوں انسان موت کی آغوش میں چلے گے ۔پہلی جنگِ
عظیم اور دوسری جنگِ عظیم کی ہولناکیاں آج بھی خون کے آنسو رلاتی ہیں ۔ہیرو
شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم کی تبا ہ کاریوں کے باوجود انسانی ارتقاء کا
سفر جاری و ساری رہا۔ پچھلی صدی میں انسان مختلف وبا ؤں کا شکار بن کر
کروڑوں کی تعداد میں موت سے ہم آغوش ہو تا رہا لیکن اس نے پھر بھی اپنے
ایمان کی پختگی اور تیقن پر کبھی حرف نہیں آنے دیا بلکہ ہر وباء اور آفت کو
اﷲ کی رضا سمجھ کر اس کا سامنا کرنا اس کی فطرتِ سلیم کا حصہ رہا ہے ۔ اس
نے جس طرح ہر آزمائش میں ذہنی پختگی کا ثبوت دیا وہی اس کے ارتقاء کا سنگِ
میل ہے ۔لیکن باعثِ حیرت ہے کہ انسان نے کسی آزمائش اور ابتلاء میں اتنی
بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا کورونا وائرس کے بارے میں دیکھنے کو مل رہا
ہے۔ہر انسان اندر سے سہما ہوا ہے۔وہ گھبرایا ہوا ہے اور خدا پر ان کا یقین
متزلزل ہو گیا ہے۔در اصل یہ ایک ایسا وائرس ہے جس کی ظاہری علامتوں سے اس
کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔اچھا بھلا تندرست انسان بھی کورونا وائرس کا
مریض نکل آتا ہے جو دوسروں کو خوف میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہے ۔اس خطرناک
وائرس کو جس طرح پیش کیا جا رہا ہے اس نے پوری انسانیت کو خوف میں مبتلا کر
دیا ہے جس سے صحت مند انسان بھی ٹیسٹ سے گریز کرتا ہے حالانکہ روزانہ
سینکڑوں لوگ اس وائرس کے بعد صحت مند ہو کر گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں لیکن
اس وائرس کی ہیبت پھر بھی کم نہیں ہو رہی ۔ وزیرِ بلدیات سعید غنی اور
شہزادہ چارلس اس کی بین مثالیں ہیں لیکن عوام پھر بھی سہمے ہوئے ہیں اور ان
کا خوف دور ہونے کا نام نہیں لے رہا۔یہ ایک ایسا وائرس ہے جس کے خوف نے
انسانوں کے اندر فاصلوں کو جنم دیا ہے ،انھیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور کر
دیا ہے بلکہ ان کے اندر محبت ، وارفتگی،چاہت اور میل ملاپ کا بھی خون کر
دیا ہے۔اس سے رشتوں میں دوریاں جنم لے رہی ہیں اور مشترکہ خاندانوں میں
ایسے فاصلے پیدا ہو رہے ہیں جس میں تنہائی کو اولیت حاصل ہے ۔اپنے خونی
رشتوں کے ہاں جانا اور خیرو عافیت دریافت کرنے کی دلپذیر روائیت دھیرے
دھیرے دم توڑ رہی ہے۔اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں کے ہاں بے دھڑک جانے
والے بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ٹیلیفون ہی واحد سہارا ہے جس سے ایک دوسرے کی
عافیت معلوم کی جا رہی ہے۔مشرق کی مصافحہ اور معانقہ کی وہ روائیت جو دلوں
کو سرشاری عطا کرتی تھی دم توڑتی جا رہی ہے۔ اپنے لختِ جگر کو گلے لگانا
اور اپنے پیاروں کی پیشانی کا بوسہ لینا میڈیکل سائنس کی مسلط کردہ
پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑ ا جا چکا ہے۔اپنی بیٹی کے سر پر دستِ شفقت
رکھنے سے اور اپنے لاڈلوں کو گود میں اٹھانے سے قبل سو بار سوچنا پرتا
ہے۔اپنی عظیم الشان ترقی اور ارتقاء کے باوجود انسان اتنا بے بس بھی ہو
جائیگا تصور سے ماوراء ہے؟
اس وقت یورپ اور امریکہ اس وائرس کا گڑھ بنے ہوئے ہیں۔ان کے ہاں اموا ت کی
شرح انتہائی بلند ہے۔برِ صغیر پاک و ہند، مڈل ایسٹ ،ایشیا،افریکہ اور مسلم
ممالک میں کو رونا وائرس کے جان لیوا اثرات تو ضرورہیں لیکن ان کی تعداد
یورپی اقوام کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔دنیا کے ایک کیمو نسٹ ملک چین سے
اس وائرس کا آغاز ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا اس وائرس کا شکار
ہو گئی۔مسلم ممالک میں اموات کا تناسب قدرے کم ہے حالانکہ ان کے ہاں علاج
معالجہ کی سہولتوں کا فقدان ہے اور میڈیکل سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں
لیکن پھر بھی وہاں اس وائرس نے وہ تباہی نہیں مچائی جو یورپی اقوام کا مقدر
بنی ہوئی ہے۔کوئی ہے جو یہ بتا سکے کہ ایسا کیوں ہے؟ کوئی ہے جو اس راز سے
پردہ اٹھا سکے کہ یہ تفاوت کیوں ہے؟کچھ لوگ اسے انسانی رویوں کا نام دے رہے
ہیں،سماجی راہ ورسم سے منسوب کر رہے ہیں ، یورپ کی جنسی بے راہ روی سے
تعبیر کر رہے ہیں ، خوراک میں بے ترتیبی اور خوردو نوش میں بے اعتدالی سے
نتھی کر رہے ہیں شراب نوشی اور سگریٹ نوشی میں ملوث ہونے کا طعنہ دے رہے
ہیں جھنیں بآسانی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔چمگاڈر کو ہڑپ کر جانے والی
اقوام،سور کا گوشت رغبت سے کھانے والے معاشرے،شراب کے نشے میں دھت رہنے
والے خطے ،سانپ اورچھپکلی کو نگل جانے والے افراد ،کتے بلیوں کو چٹخارے لے
کر کھانے والی سوسائٹیاں اور گدھے کا گوشت پیٹ میں اتارنے والے معاشرے اس
وائرس کا گڑھ بنے ہوئے ہیں جھنیں زعمِ خدائی ہو رہا تھا ان کے ہاں لا شوں
کے انبار لگے ہوئے ہیں ۔ ان کے جدید جہاز ،ڈرون ، ایٹم بم اور میزائل ایک
چھوٹے سے وائرس کو مٹانے میں بے بس ہیں۔حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ
ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ان کے ہاں اس مرض نے اتنی تباہی کیوں مچائی ہوئی
ہے ؟ وہ کونسی خطا ہے جو ان سے سرزد ہو گئی ہے؟ وہ کونسا فعل ہے جو خالقِ
کائنات کی نظر میں ناپسندیدہ ہے؟ وہ کونساجرم ہے جس کی انھیں سزا مل رہی
ہے؟ انسان کبھی کبھی ذاتی تفاخر میں ان حدود میں دا خل ہو جاتا ہے جہاں اس
کا قدم رکھنا نا پسندیدہ ہوتا ہے۔ وہ خدائی مسند پر برا جمان ہو نے کو جب
اپنی عقل و دانش کا نام دینے لگ جاتا ہے تو اس کے گرد شکنجہ کس دیا جاتا
ہے۔سائنسی علوم میں دسترس سے کسی کو انکار نہیں لیکن کیا اس کے معنی یہ ہیں
کہ انسان خدائی دعوی کر کے خالقِ کائنات کے قادرِ مطلق ہونے کو بھول جائے
اور اس کی خدائی عظمت کو چیلنج کر کے اپنے سفلی قوانین پر عمل پیرا ہو
جائے۔مادیت پرستی کا نظریہ اپنی جگہ لیکن کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے
خدا ہونے کا ہی انکار کر دیاجائے؟جب سے یہ کائنات بنی ہے مختلف سوچوں کا
ٹکراؤ اس کائنات کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے لیکن تمام تر ارتقا، ترقی اور
اختیار کے باوجود فتح ہمیشہ حق ہی کا مقدر بنتی رہی ہے ۔یورپ بھی تو
عیسائیت کے پیرو کاروں کا خطہ ہے لیکن نجانے کیوں انھوں نے مذہب کو بالائے
طاق رکھا ہوا ہے؟مذہب انسان کیلئے طاقت اور ڈھال ہے لیکن جو اقوام اس ڈھال
کو خود اپنے ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر دیں ان کے انجام کی نشاندہی فطرت خود
بخود کر دیتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی ممالک میں کرونا وائرس
کے موذی اثرات کم ہیں جس کی وجہ مسلمانوں کے ہاں طہارت ، پاکیزگی اور صفائی
کی موجودگی ،حرام و حلال کی تمیز اور صوم و صلوات کی پابندی ہے ۔جس امت کے
افرادروزانہ پانچ مرتبہ وضو کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہوں اورجن میں غسل کا
اہتمام باقاعدگی سے ہوتاہو ان کے افعال انھیں کو رونا وائرس کے حملوں سے
محفوظ رہنے کا مضبوط جواز مہیا کرتے ہیں ۔یورپی اقوام کے مقابلے میں مسلم
اقوام کے ہاں موسم گرم مرطوب ہے اس لئے کرونا وائرس کا اثر بھی کم ہے ۔جفا
کشی بھی قوتِ مدافعت بڑھانے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے لہذا اسے بھی نظر انداز
نہیں کیا جا سکتا۔یہ کوئی سائنسی توجیہ تو نہیں ہے لیکن زمینی حقائق بہر
حال اس کی گواہی دیتے ہیں کہ گرم موسم کے حامل ممالک میں کرونا وائرس کا
اثر کم ہوتا ہے۔گرم و سرد موسم کے مفر وضہ کا فیصلہ تو جلد ہو جائے گا لیکن
رشتوں میں جو دوریاں جنم لے چکی ہیں ان کا مداوا کیسے ہو گا؟
|