سلطنت عثمانیہ کے دور میں ایک بڑی اچھی روائت تھی کہ ہر
تندور پہ ایک نیکی کی ٹوکری نصب ہوتی تھی جس میں ہر صاحب حیثیت اپنی ضرورت
سے زائد ایک دو روٹیاں خرید کر رکھ دیتا تھا ، اب جس بھوکے ضرورت مند کو
روٹی چاہئے ہوتی وہ نیکی کی اس ٹوکری سےبلاجھجک حسب منشاء روٹی حاصل کرکے
اپنی اور اپنے کنبے کی بھوک مٹانے کا سامان کرلیتا، پتہ نہیں یہ بہترین عمل
کس نے شروع کیا لیکن اس سے کئی سو سالوں تک بےشمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا ۔
ایک شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں سعید بن عاص رحمہ اللہ کے پاس آیا اور
اپنی پریشانی بیان کی سعید نے ملازم سے کہا "اسے پانچ سو درھم دے دو"ملازم
نے کہا" پانچ سو درھم یا پانچ سو دینار؟"(دینار درہم سے مہنگاتھا)
کہنے لگے "کہے تو پانچ سو درھم ہی تھے لیکن اب تم نے بات کر دی ہے تو پانچ
ہزاردینار ہی دو"
آدمی یہ سن کر رونے لگا۔ "پوچھا روتے کیوں ہو؟"
کہنے لگا " اے سعید! یہ سوچ کر رودیا ہوں کہ تیرے جسم کو بھی قبر کی مٹی
کھا جائے گی" افسوس آج ہمارے تاجر مال و دولت کو فلاحی کاموں میں خرچ کرنے
کے بجائے سنبھال سنبھال کر رکھ رہے ہیں حالانکہ عنقریب ان کا مال اور وہ
خود مٹی ہو جائیں گے اور پھر اللہ کے حضور باز پرس جو ہوگی وہ الگ ۔
ہم اس عظیم المرتبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جنہوں نے دن
رات انسانیت کی تعلیم و تربیت اور خدمت میں گزارے ، انہوں نے حالات کے
مطابق خفیہ اور اعلانیہ اس طرح لوگوں کی مدد کی کہ تاریخ میں دوسری مثال
نہیں مل سکتی، یہ ان کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ حصرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں راتوں کو جاگ جاگ
کر گلیوں میں گھوم پھر کر حالات سے آگاہی حاصل کرتے اور لوگوں کے گھروں میں
کھانے پینے کا سامان پہنچاتے ان کی ہر ممکن مدد کرتے ، سیدنا عثمان رضی
اللہ عنہ کی سخاوت سے کون واقف نہیں؟ سامان سے لدا ہزار ہزار اونٹوں کا
قافلہ ایک ہی وقت میں خیرات کردیتے،شیرخدا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سا
ایثار کا جذبہ کس میں ہوگا؟ تین دن کے بھوکے ہیں ایک روٹی ہے اور وہ بھی
مانگنے والے کو دے دی خود پھر پانی سے روضہ افطار کرلیا ۔ لوگ مال و دولت
جمع کرنے بڑے بڑے گھر بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کرتے ہیں، ان کے
بیٹے اور بھتیجے صدقہ و خیرات کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کیا
کرتے تھے ۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہترین فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی جس
میں اپنی ضرورت سے زائد مال لوگوں کی فلاح و بہبود پہ خرچ کرنے کا حکم ہے ۔آپ
نے فرمایا" مومن وہ نہیں جو خود تو پیٹ بھر کے کھاتا ہو ، اور اس کے آس پاس
کوئی بھوکا ہو"۔ ایک بےحد غریب اور مجبور گھرانے کے لئے جگہ خرید کر گھر کا
انتظام کرنا ہے ، چار بچے ہیں، ماں بیمار ہے کوئی کاروبار نہیں ، حالات
ایسے ہوگئے ہیں کہ اٹھارہ سالہ بڑے بیٹے کو تعلیم چھوڑ کراب مزدوری کرنی
پڑے گی ، چار سے پانچ لاکھ روپے میں ان کے لئے گھر کا بندوبست ہوسکتا ہے ،
مخیر اور درد دل رکھنے والے چند احباب بھی کوشش کریں تومسئلہ حل ہوسکتا ہے،
جو دوست مدد کرنا چاہیں وہ مجھ سے 03434011974پررابطہ کریں ۔ اور ایسے
لوگوں کے لئے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں بہترین بشارت
ہے کہ " جب تک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی مدد کرتا ہے اللہ تعالی اس کی
مدد کرتا رہتاہے " ۔ اگر آپ کو اللہ نے مال دیا ہے تو آئیے ! مرنے سے پہلے
کوئی ایک نیکی کا ایسا کام کرجائیے جو آپ کی آنے والی نسلوں کے لئے خیر اور
آپ کی نجات کا باعث بن سکے۔
مقابلہ کیجئے لیکن خیر اور نیکی کے کاموں میں ۔
|