آئیں ندامت کے چند آنسو بہالیں

کہتے ہیں کروناسے ڈرنانہیں لڑناہے۔قدرتی آفات،بلیات،آزمائش اورامتحانوں سے توڈراجاتاہے لڑانہیں مگرنہ جانے ہم کس قسم کے ڈھیٹ ،ظالم ،جاہل اورسرکش لوگ ہیں کہ جوباربارکی تنبیہ اوروارننگ کے باوجودبھی اپنی ان گھٹیاحرکات،سکنات اورسرکشیوں سے بازنہیں آرہے۔اس ذات سے لڑناتودوراس خدائے عزوجل کی ایک چھوٹی سی قدرت کامقابلہ بھی انسان کیا۔۔؟پوری دنیاکے بس کی بات نہیں۔مغرب سے مشرق اورشمال سے جنوب تک ڈونلڈٹرمپ،نیتن یاہو،پوٹن اورمودی جیسے فرعون بھی نعوذبااﷲ اس زمین پر خودکوخداسمجھ کرپروردگارعالم سے ڈرنے کی بجائے لڑنے کی بڑھکیں ماراکرتے تھے لیکن ایک کروناکی وجہ سے آج نہ صرف ان سب کی بولتی تک بندہوگئی ہے بلکہ کروناکے خوف سے اب ہرایک اپنی جگہ سرسے پاؤں تک تھرتھرکانپ رہاہے۔ جوکل تک خداکوبھی نہیں مان رہے تھے ۔کروناکی صورت میں روئے زمین پراﷲ کی بے آوازلاٹھی پڑنے پر آج وہ بھی نہ صرف خداکومان رہے ہیں بلکہ اب تووہ بھی ہر وقت ندامت کے آنسوبہابہاکر خداکوپکاررہے ہیں۔اس کے مقابلے میں ہم مسلمان جوپہلے سے نہ صرف خداکواپناخدا،مالک،رازق اورخالق مان رہے ہیں بلکہ اﷲ کی قدرت اوروحدانیت پربھی سچے دل سے ایمان ویقین رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجودکروناجیسی آفات،بلیات اورآزمائشوں کے موقع پرہم اپنے اس خداسے رجوع کرنے اوراس کی طرف سے آنے والی آزمائشوں،آفات اوربلیات سے ڈرنے ،کانپنے اورلرزنے کی بجائے،، لڑنے اورمقابلہ کرنے،،جیسے کفریہ کلمات کاوردشروع کرکے سرکشی میں مزیدمست ہوجاتے ہیں جوہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔یہ تودنیاکابھی دستور،رواج اورمزاج ہے کہ اپنے مالک اورخالق سے کوئی لڑتانہیں بلکہ ہرشخص وانسان یہ کوشش کرتاہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ اپنے مالک کے عیض وعضب سے بچے۔انسان کیا۔۔؟جنگلوں میں چرنے والے وہ وحشی جانوراوردرندے بھی کبھی اپنے مالک سے لڑنے کی بڑھکیں نہیں ماراکرتے۔پھرہم انسان ہیں کہ یاکوئی بت۔۔؟جوعقل،فہم اورشعورکے باوجودنہ صرف اس طرح کے کفریہ کلمات اداکرتے ہیں بلکہ یہ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ ہم قدرتی آفات وبلیات کوکہیں شکست دے دیں گے۔یادرکھیئے۔اﷲ کی کبریائی اوربڑائی کی طرف اٹھنے والے ہاتھ اورپیرپھرکبھی سالم واپس نہیں آتے۔یقین نہ آئے توقرآن مجیدفرقان حمیداٹھاکرپڑھ لیجیئے۔احادیث مبارکہ کامطالعہ کیجیئے۔فرعون،نمرود،قارون اورابرہہ کے انجام کودیکھ لیجیئے۔ابرہہ بھی حضرت عبدالمطلب اوران کے قوم کے ضبط کیئے گئے اونٹ واپس کرکے اﷲ سے لڑنے اورمقابلہ کرنے کے لئے چل پڑے تھے ۔آپ کویادہے پھران کے ساتھ کیاہواتھا۔اﷲ سے لڑنے کے لئے ابرہہ نے جب اپنی فوج کے ساتھ مکے پرحملہ کیاتوخدانے مکے والوں کی مددکے لئے ابابیلیں بھجیں جن کے پنجوں میں کنکریاں تھیں۔یہ کنکری جس شخص کولگ جاتی۔اس کابدن پھٹ جاتااوروہ تڑپ تڑپ کرمرجاتا۔وہ خداتوجب کسی کوبچانے پرآتاہے تواسے پھرموت کے منہ سے بھی بچالیتاہے لیکن جب وہ کسی کومارنے پرآئے توپھراسے چھوٹی چھوٹی کنکریوں ،ڈینگی اورکروناجیسے نہ نظرآنے والے وائرس سے بھی ماردیتاہے۔ اس لئے اس اﷲ سے ڈراجاتاہے لڑانہیں۔ہمیں بھی اپنے عادات واطوار،طورطریقے اوراپنی سمت ٹھیک کرکے اپنے اس خالق اورحقیقی مالک سے رجوع کرناچاہیئے۔اس سے پہلے آنے والے قیامت خیززلزلوں،سیلاب ،آندھی اورطوفانوں سے ہمیں کس نے بچایا۔۔؟ایک ہی اﷲ توہے جوباربارہمیں آفات اوربلیات سے بچارہے ہیں۔اس رب کی مرضی اورمنشاء کے بغیرہم ایک سانس بھی نہیں لے سکتے۔اس رب کاحکم نہ ہواتودنیاکی پوری طاقت اورمشینری مل کربھی ہمیں کروناجیسے چھوٹے سے وائرس سے بھی نہیں بچاسکتی۔دنیاکایہ نظام توقائم ہی اس رب کی قدرت سے ہے۔اس رب کی قدرت کامقابلہ بھلاکون کرسکتاہے۔۔؟وہی خداتوہے جوجباربھی ہے۔۔قہاربھی ہے۔۔قادربھی ہے۔۔خالق بھی ہے۔۔رازق بھی ہے ۔۔احدبھی ہے۔۔صمدبھی ہے۔۔کرونا،ڈینگی اورابابیل یہ تواس خداکی قدرت کی ہلکی سی جھلک اورچھوٹی چھوٹی نشانیوں میں سے ہیں۔اس زمین پرکل تک جواپنے آپ کوخداسمجھ رہے تھے ۔کروناکانام سن کرآج ان کے بھی پیرپھولناشروع ہوجاتے ہیں۔جوڈینگی کے ایک چھوٹے سے مچھراورکروناجیسے کسی چھوٹے سے وائرس کی ڈرسے کمروں میں قیدہوکرکانپنے اورلرزنے لگیں ان کی اوقات کیاہوسکتی ہے۔۔؟ایک کرونانے آج پوری دنیاکوہلاکررکھ دیاہے۔جوخلاء میں چاندپر محل بنانے اورآسمان کوفتح کرنے کی باتیں کررہے تھے وہ بھی آج کروناکے سامنے بے بس اوربے وس دکھائی دے رہے ہیں۔امریکہ،برطانیہ ،سپین اوراٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح ویرانگی ،خاموشی،خوف وہراس اورلاک ڈاؤن یہ اس بات کاٹھوس اورواضح ثبوت ہے کہ ہم انسانوں کی کوئی اوقات،طاقت ،بس اوروس نہیں۔قدرتی آفات،بلیات ،آزمائش اوراس قسم کی وبائیں ہمیں وارننگ دینے کے لئے آتی ہیں ۔اس سے پہلے بھی زلزلے،سیلاب،وبائیں،بلائیں ،سیلاب ،آندھی اوربہت سے طوفان آئے مگرہم راہ راست پرنہیں آئے۔یہ کرونابھی ہمارے لئے رب کی طرف سے ایک وارننگ ہے۔اب کی بارہمیں سچے دل سے توبہ کرکے راہ راست پرآناچاہیئے۔توبہ کادروازہ بھی ہمیشہ کھلانہیں رہتا۔معافی کے مواقع بھی باربارنہیں ملتے۔ہمیں اس موقع کوغنیمت جان کراس سے فائدہ اٹھاناچاہیئے۔بندے کواپنی غلطی اورگناہ کااحساس اورپھراس غلطی اورگناہ پربندے کی گریہ وزاری اورشیرخواربچوں کی طرح بلک بلک کررونااﷲ تعالیٰ کوبہت پسندہے۔جب کوئی انسان جرم اورگناہ کرنے کے بعداپنے مالک حقیقی کے سامنے روتاہے توخدااس سے بے انتہاء خوش ہوتاہے۔کیونکہ گریہ وزاری اوراﷲ کے سامنے سرجھکاکربلک بلک کررونے کے ذریعے بندہ اپنی بندگی،عاجزی اوراﷲ کی عظمت کااعتراف کرتاہے اوریہی وہ تصورہے جس کے استحکام پراﷲ تعالیٰ نے اپنے قرب اوربڑی نعمتوں ورحمتوں کاوعدہ فرمایاہے۔ایک موقع پررسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایاکہ اﷲ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ سے اتناخوش ہوتاہے جیساکہ وہ سوارجس کی سواری کھانے اورپانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھوجائے اوروہ مایوس ہوکرایک درخت کے نیچے سوجائے ۔جب آنکھ کھلے تودیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے۔ایک اورحدیث جس کامفہوم ہے کہ اﷲ کے نزدیک کوئی چیزدوقطروں سے زیادہ محبوب نہیں۔ایک آنسوکاوہ قطرہ جواﷲ کے خوف سے نکلاہواوردوسراخون کاوہ قطرہ جواﷲ کے راستے میں گراہو۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ اﷲ کے نزدیک ندامت کے آنسوشہیدوں کے خون کی ماننداہمیت رکھتے ہیں۔مولانارومی فرماتے ہیں کہ ۔۔قطرہ اشک ندامت درسجود۔۔ہمسری خون شہادت می نمود۔۔ندامت کے آنسوؤں کے وہ قطرے جوسجدے میں گنہگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں ۔اتنے قیمتی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ان کوشہیدوں کے خون کے برابروزن کرتی ہے۔کروناسے لڑنے اورمقابلے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں۔بحیثیت انسان ہم بہت کمزورحدسے بھی زیادہ کمزورہیں۔کسی وباء اورآفت کامقابلہ ہمارے بس میں نہیں ۔ہم چاہتے ہوئے بھی کروناجیسی وباؤں کے سامنے کچھ نہیں کرسکتے۔آیئے اپنے رحیم وکریم رب کے سامنے اپنے سرجھکااورہاتھ اٹھاکراپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔مجھے سوفیصدیقین اورامیدہے کہ اپنے ایک ایک بندے سے سترماؤں سے زیادہ پیارکرنے والاوہ رحیم وشفیق رب ہمیں ضرورمعاف کردیں گے۔اس لیئے یہ وقت کروناسے ڈرنے یالڑنے کانہیں بلکہ اپنے رب سے رجوع کرنے کاہے۔آئیں دل کھول کراس رب کے سامنے ندامت کے چندآنسوبہالیں۔ تاکہ نہ صرف کروناجیسی یہ مصیبت بلکہ ہربلااوروباء سے ہماری جان چھوٹ جائے۔کروناتوصرف ایک قطرے کی مارہے۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 210 Articles with 132594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.