عذاب اور معجزات

کسی بھی قدرتی آ فت کو عذاب قرار دینا ہمارے معاشرے کا چلن ہے۔ محض ایک خیال ہے۔ جس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔

چونکہ ہمارے معاشرے میں کسی بھی قدرتی آفت کو محض مفروضے یا ذہنی خیال کی بنیاد پہ ،ارادی یا غیر ارادی ذہنی فرحت حاصل کرنے کے لیے اللہ کا عذاب قرار دے دینے کا چلن موجود ہے ، جو کہ ایک خیالی پلا ؤ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا-کیونکہ کسی بھی آفت کو عذاب قرار دینے کے لیے نہ ہمارے پاس کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی وسیلہ ہے(جیسےوحی) جو اللہ کے ارادے کو ظاہر کرے-محض قران اور روائیتوں میں بیان کردہ عذاب کے واقعات کو زبردستی موجودہ صورتحال پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- اس لیے ضروری ہے کہ اس موضوع پہ کچھ غور کیا جائے-

اللہ اور اس کے قادر مطلق ہونے پر ایمان کے نتیجے میں اور قران میں بیان کیے گئے واقعات معجزات اور عذاب پہ ایمان کی وجہ سے ہم معجزات اور عذاب پہ یقین رکھتے ہیں- اللہ نے ایک عالم اسباب تخلیق کیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں- ہم(انسانوں) نے اس عالم اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اس علم کو سائینس کہتے ہیں- لیکن موجودہ جدید سائینس اس بات کی معترف ہے کہ ہماری پہنچ ابھی تک اس عالم اسباب کے بھی بہت محدود دائرے تک ہو سکی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ انسانی ذہن اس مادی پہنچ کے دائرے سے حاصل کردہ علم کی بنیاد پر اس سے ماوراء بھی کچھ سوچ سکتا ہے، جسے فلسفہ کہتے ہیں- لیکن فلسفیانہ کاوشیں اکثر حقیقت سے دور پائی گئی ہیں یعنی جدید دور کے مشاہدات نے ان کے اکثر نظریات کی تردید کردی ہے- لہذہ جدید دور کے سائینسدانوں(مثلا' اسٹیفن ھاکینگ) کے بقول اب فلسفہ کا کام ختم ہو گیا ہے- اب انسان صرف محیر العقول مشاہدا ت کی توضیح اور تجزیے میں الجھ کے رہ گیا ہے- یہ ہیں انسانی عقل کے حدود-

اللہ قادر مطلق ہے- اس کے لیے بغیر اسباب کے کوئی واقعہ منعقد کردینا ناممکن نہیں ، کیونکہ بہرحال اسباب بھی اسی کی تخلیق ہیں- ہماری ناقص عقل صرف اسباب کو سمجھتی ہے کیونکہ ہم اس عالم اسباب میں رہتے ہیں- بلا سبب کسی واقعہ کو سمجھنے میں ہمیں دقت کا سامنا ہوتا ہے- یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم سہ جہتی دنیا میں رہتے ہیں اور کسی چہار جہتی نظام کو سمجھنا ہمارے لیے نا ممکن ہے جبکہ ہمارے پاس اس کے ریاضیاتی ثبوت بھی موجود ہیں- معجزات اور دنیوی عذاب اسی دوسرے قسم کے واقعات کی قسم میں سے ہیں جن کا سبب نہیں ہوتا- مثال کے طور پہ حدیث کے مطابق فرشتے کا رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہونا اور کہنا کہ اگر آپﷺ کہیں تو اس طائف کی بستی کو ان دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں- گویا اللہ کو پہاڑ کو ہلانے کے لیے کسی عالم اسباب کے سبب کی ضرورت نہیں جیسے زلزلہ وغیرہ- عالم اسباب اور بہت سے دوسرے نامعلوم عالموں میں سے ایک ہو سکتا ہے جو اللہ نے تخلیق کیے ہوں، ان نا معلوم عالموں کا ہمیں علم نہیں اور نہ ہم انہیں سمجھ سکتے ہیں- قران کے مطابق عذاب ایک اچانک آنے والی آفت ہوتی ہے، اور پورے کا پورا شہر یا آبادی اس کی گرفت میں آ جاتی ہے- اس کا سبب نامعلوم ہوتا ہے، کسی طریقے سے اس کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی اور وہ اچانک نازل ہوتا ہے- اس کی مثالیں قران میں کئی جگہوں پہ بیان کی گئی ہیں- جیسے صاعقہ (اچانک ٹوٹ پڑنے والا عذاب ---فصلات -۱۷)-

یا الصیحۃ ( کڑک دار آواز یا دھماکہ---ھود ۶۷) ایک چنگاڑھ تھی اور جیسے وہ کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے وغیرہ-

یعنی عذاب یا معجزہ ناقابل فہم اور ناقابل سراغ ہوتا ہے- لہذہ ایسی آفت یا طوفان ، سیلاب، سونامی وغیرہ جس کی پیش گوئی کی گئی ہو، یا اچانک ہو لیکن اس کے اسباب کا پتہ ہو اللہ کا عذاب نہیں قرار دیا جاسکتا- ہر بڑے طوفان کو اللہ کا عذاب قرار دے دینا بے علمی کے سوا کچھ نہیں- قران سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ عذاب کے لیے فرشتوں اور دیگر قوتوں کو ماوراء اسباب استعمال کرتا ہے- لہذہ کسی قدرتی آفت کو ٰعذاب قرار دے دینا ہماری ناقص رائے میں صرف ایک مفروضہ ہے- یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ اسباب پیدا کر کے بھی عذاب لا سکتا ہے ، درست ہے ، لیکن اس بات کو جاننے کا ذریعہ کیا ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے ، محض مفروضہ!۔۔ اس لئیے کسی قدرتی آ فت کو عذاب نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔
 

Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 8 Articles with 6750 views A enthusiastic reader and writer. Interested in new discoveries, inventions, innovations in science and their place and effect in society and religio.. View More