’’کرسی کی خواہش’’

آج صبح جامعہ جانے کے لئے گھر سے نکلی تو بس ذہن میں ایک ہی چیز تھی "یا اللّٰہ مجھے بس میں جگہ مل جائے بیٹھنے کے لئے" فقط ایک کرسی کی خواہش لئے میں بس اسٹاپ تک پہنچی۔چند منٹوں کے بعد بس صاحبہ رواں دواں آتی ہوئی نظر آئیں اور میں بزات خود بس کی جانب ایسے لپکی جیسے دکاندار گاہک کو دیکھ کر لپکتا ہے خوشی اس وقت دگنی ہوگئی جب بس میں ایک خالی سیٹ نظر آئی۔ میں خراماں خراماں اس کی جانب بڑھی کہ اچانک پیچھے سے ایک بیگ اس پر گرا اور ایک صاحبہ اس پر براجمان ہوگئیں اور میری جانب ایسی نگاہوں سے دیکھنے لگیں جیسے ایک گاڑی کا مسافر سائیکل پہ جانے والوں کو دیکھتا ہے۔ خیر۔ ۔ ۔ میں وہیں رک گئی اور سیاستدانوں کی حالت کا بخوبی اندازہ ہوگیا جو کہ ان کی الیکشن ہارنے کے بعد ہوتی ہے۔ ۔ ۔پس بس چلنا شروع ہوگئی اور میں ان سوچوں میں کھو گئی کہ یہ کرسی کتنی اہم ہوتی ہے کہنے کو یہ کرسی لوہے، اسٹیل، لکڑی اور پلاسٹک کی ہوتی ہے اس کی قیمت کا اندازہ اس کا بنانے والا بھی نہیں جانتا مگر اس کا ضرورت مند اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوتا ہے ۔ ۔ ۔اس کرسی کے لئے لوگ ایوانوں میں آپس میں لڑتے ہیں۔ ۔ ۔ بوڑھے تو بوڑھے یہاں تو معصوم بچے بھی لڑائی کرتے ہیں فقط ایک کرسی کے لئے۔ کچھ عرصے قبل ہمارے گھر کزن صاحب مع اپنے دو عدد ہونہاروں کے تشریف لائے ۔گھر میں موجود ایک کرسی دیکھ کر جو ہنگامہ شروع ہوا اللّٰہ جانتا ہے ۔ ۔ ۔ نوبت یہ آئی کہ ہم نے وہ کرسی دوچھتی پہ ڈال دی۔۔ چنانچہ کرسی کی اہمیت اتنی ہے کہ دو لوگ ایک کرسی کے لئے لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں کہ ایک کو چاہیئے ہوتی ہے سرتاج کی کرسی تو دوسرے کو بیگم کی کی کرسی پر بیٹھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات عوامی بسوں میں کوئی سیٹ خالی مل جائے تو حیران مت ہونا کیونکہ اس کے پیچھے حقیقت چھپی ہوتی ہے یا تو سیٹ ہوادار نہیں ہوگی یا پھر اس سیٹ کی شخصیت میں کوئی مسئلہ ہوگا۔ ۔ اکثر بس میں ایسی شخصیت سوار ہوتی ہیں جو ساری سیٹیں بھری دیکھ کے اچھی خاصی حالت کو بگاڑ لیتی ہیں ۔ ۔ ۔ ہائے ہوئی۔ ۔ ۔ بس ہلتی بھی ہے تو وہ نازک ہستی سیٹ پر بیٹھی شخصیت پر اسیے گر جاتی ہے کہ جیسے ان میں دم ہی نہ ہو آخر ان کی یہ حالت دیکھ کر ایک خدا ترس بندا انہیں اپنی سیٹ پر بیٹھنے کی دعوت دیتا ہے اور وہ ہستی اپنا تمام درد بھلائے سیٹ پر ایسے براجمان ہوتی ہیں کہ جیسے کوئی بندہ نوکری میں ترقی کہ بعد کرسی پر بیٹھتا ہے ۔ بچپن کا یہ واقعہ اچھے سے یاد ہے کہ اسکول کے ابتدائی دنوں میں کبھی چھٹی نہیں کی کیونکہ اس کے پیچھے ایک راز ہے ۔ شروع کے دنوں میں طالب علم اپنی سیٹیں مخصوص کرلیتے ہیں اور وہ پھر پورا سال اس پر بیٹھتے ہیں اچھے بچے ہمیشہ آگے بیٹھتے ہیں تو شرارتی بچے زیادہ تر پیچھے بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر رہ جاتے ہیں ہم جیسے تو وہ درمیان کی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں کیونکہ اس کا ایک فائدہ ہوتا ہے کہ آپ اچھے بچوں کہ ساتھ پڑھائی کر لیتے ہو اور شرارتی بچوں کے ساتھ شرارت ۔ ابھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک پیچھے سے دھکا لگتا ہے اور آواز آتی ہے ۔ بی بی! کن سوچوں میں گم ہو جامعہ آگئی ہے اور میں نے اسی وقت اپنے قدموں کو 100 کی رفتار پر سیٹ کردیا آخر کو کلاس میں پسندیدہ کرسی بھی تو چاہئے تھی۔ ۔ ۔

تحریر کنندہ کا نام : حفصہ عبدالقیوم
 

Hafsa Abdul Qayum
About the Author: Hafsa Abdul Qayum Read More Articles by Hafsa Abdul Qayum: 6 Articles with 4496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.