وہ کمرے میں د ا خل ہو تا ہے، اس
کا با پ کر سی کی پشت کے سا تھ ٹیک لگا ئے، آنکھیں مو ند ھے بیٹھا ہے۔ وہ آ
ہستہ آہستہ قدم ُا ٹھا تا ہوا ا پنے بو ڑھے ،تھکن ز دہ با پ کے سا منے آ
کھڑا ہو تا ہے۔ رات کے پچھلے پہر، کمرے کے ُاداس ما حول میں، ز ند گی سے
بھر پور نو جوان بیٹا ا پنے با پ کے سا منے کھڑا ہو کر یہ سو چتا ہے کہ وہ
شا ید ہر من ہنزکی کہا نی کا کر دار ’سدھا ر تھ‘ ہے جو ا پنے بو ڑ ھے بر
ہمن باپ کو ا لوداع کہنے آیا ہے۔
بیٹا : ا با!
(با پ خا مو ش رہتا ہے)
بیٹا (کچھ د یر تو قف کے بعد) صبح کو میر ی فلا ئٹ ہے۔۔۔۔میں جا ر ہا ہوں۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے اس فیصلے سے خوش نہیں۔۔
پا پ : (آ نکھیں کھو لتے ہو ئے) گیا رہ ا فراد۔۔۔۔۔اس خا ندان کے گیا رہ ا
فراد ہجرت کر تے و قت شہید ہو گئے تھے۔ سکھوں نے ا نہیں جنگل میں گھیر کر
جا نوروں کی طرح ذبح کر دیا تھا۔ میں اس وقت چھو ٹا تھا، میرے باپ نے مجھے
ُا ٹھا یا ہوا تھا، وہ سکھوں سے بچتے ہو ئے بھا گ ر ہے تھے۔ ان کا قمیض کچھ
ا پنے اور کچھ ا پنوں کے لہو سے سرخ تھا۔ میرے پاس وہ قمیض آج تک محفوظ ہے۔
بیٹا : میں یہ سب سمجھتا۔۔۔۔
با پ : (خفگی سے)تم کچھ نہیں سمجھتے۔ تم بز دلوں کی طرح یہ ملک چھوڑ کر جا
ر ہے ہو۔
بیٹا : سچ یہ ہے کہ آپ کو میرے پر د یس جا نے سے ز یا دہ ا یک پرانا د کھ ا
ندر ہی اندر کا ٹ ر ہا ہے، وہ د کھ جس کو آپ نے بر سوں سے ا پنے من کے ا
ندر پال ر کھا ہے۔۔۔۔۔ا یک خو بصورت خواب کے بکھر نے کا دکھ۔ وہ خواب جو
ہمارے آ با ﺅ ا جداد نے ہجرت کرتے و قت د یکھا تھا۔ ا یک ُپر آشوب رات میں
ُبنا ہوا وہ سہا نا خواب بکھر چکا ہے۔ یہاں ا نصاف مر گیا ہے، امن رو ٹھ
چکا ہے اور ا تحاد کا نا م و نشان نہیں ہے۔
باپ : (ا فسردگی سے) ہا ں! وہ سب کچھ نہیں ہوسکا جو ہم نے سو چا تھا، لیکن
اس وجہ سے کیا ہم ا پنے ملک سے نفرت کرنا شروع کردیں۔۔۔اس کو چھوڑ کر ا
جنبی سر ز مینوں پر جا بسیں۔
بیٹا : مجھے ا پنے ملک سے محبت ہے لیکن اس زمیں پر قا ئم غیر ا نسانی معا
شرے سے میں نفرت کر تا ہوں۔ ہم سب نے اس دوزخ کی ا یک ایک اینٹ ا پنے ہا تھ
سے خود لگا ئی ہے۔ اور اب یہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے سستی چیز انسانی جان ہے۔
جن معا شروں میں نیچے سے اوپر تک ا نصاف نہیں ہو تا۔۔۔تو وہاں آدم خوری
پروان چڑھتی ہے۔ یہاں سب ا یک دوسرے کو کھا ر ہے ہیں۔ یہ سچ ہے اور یہی سچ
ہے کہ ہم نے اس خو بصورت ملک میں ایک ا نسان دوست معا شرہ تشکیل دینے کی
بجا ئے۔۔۔اس د ھرتی کو ایک خون خوار ، سیاہ جنگل بنا ڈالا۔
با پ : تو تم ا پنے آپ کو دوسروں سے الگ۔۔۔ایک اعلیٰ ترین انسان سمجھتے ہو۔
تمھارے نزدیک یہ جگہ تمھارے ر ہنے کے قا بل نہیں ہے۔ کیا یہی سچ ہے؟۔
بیٹا : نہیں ابا!۔ میں اس وجہ سے پردیس نہیں جا رہا کہ میں اپنی ذات کو
دوسروں سے افضل سمجھتا ہوں۔ میں جا رہا ہوں۔۔۔کیو نکہ مجھے یہ معلوم ہو گیا
ہے کہ میں کتنا گندہ ہوں اور میں اس گندگی سے اب دور جا نا چا ہتا ہوں۔
با پ : میں تمھیں بتا تا ہوں کہ تم کیوں پردیس جا نا چا ہتے ہو (تھوڑی دیر
توقف کے بعد) تم چند پونڈوں، آ سا ئشوں اور مغربی ما حول کے فر یب کے پیچھے
بھاگ رہے ہو۔
بیٹا : میں۔۔۔۔۔میں تو ایک ا حساس کے پیچھے بھاگ ر ہا ہوں۔۔۔تحفظ کا احساس،
آزادی کا احساس۔ میں اپنی اس زندگی میں ا نصاف، ا من، تحفظ اور آزادی کو
چھو نا چا ہتا ہوں۔ ایک ایسے معا شرے میں ر ہنا چا ہتا ہوں جہاں ا نسانی
جان سب سے قیمتی تصور کی جا تی ہوں۔ جہاں ایما نداری، خلوص اور سچ کی قدر
کی جا تی ہو، جہاں مر تبے، قبیلے، ر نگ نسل سے با لا تر ہو کر ا نصاف کے
تقاضے پورے کیے جا تے ہو۔ میں تو ان سب کے پیچھے بھاگ ر ہا ہوں۔
باپ : (ُپر نم آ نکھوں سے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے) ا پنے بو ڑھے باپ کو
چھوڑ جا ﺅ گے۔
( اس وقت بیٹے کو ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جسے سا ری دنیا کی اداسی اس کمرے
میں سمیٹ آئی ہے، اسے لگتا ہے کہ کمرے میں رکھیں کتا بیں، کر سیاں افسردہ
ہیں، دیواریں ما تم کر رہی ہیں اور ان سب کے درمیان ا یک بو ڑھا شخص بہت
عرصہ پہلے د یکھے ا ک سہا نے خواب کی کر چیاں سمیٹے بیٹھا ہے)
بیٹا : ( ُرندھی ہو ئی آواز میں) مجھے معلوم ہے کہ پر دیس میں صبح سے شام
تک محنت کر نے کے بعد۔۔جب میں تھک کر ایک کو نے میں بیٹھوں گا تو اس وقت کو
ئی میرا حال نہیں پو چھے گا، کو ئی میرا غم نہیں سنے گا۔ میں جا نتا ہوں کہ
جب لندن کی سڑ کوں پر تہہ در تہہ برف جم جا ئے گی تو پھر یخ بستہ ہوا ﺅں
میں تنہا ئی مجھے آرے کی طرح کا ٹے گی۔ پر دیس کے بگڑتے ہو ئے مو سموں
میں۔۔۔مجھے کہیں بھی آپ کی محبت کی گر ما ہٹ نہیں ملے گی۔ میں یہ ما نتا
ہوں کہ د نیا کی تمام آ سا ئشیں اور دولت۔۔۔آپ کی محبت اور شفقت کے سا منے
حقیر ہیں۔ لیکن میں کیا کروں کہ میں یہ بھی جا نتا ہوں کہ ہجرت کر تے وقت ا
پنے پیچھے قیمتی چیزوں کو چھو ڑ نا پڑ تا ہے۔ (بیٹا آ گے بڑھ کر باپ کا
ہاتھ چو متا ہے اور کمرے سے با ہر نکل جا تا ہے) |