کالا بازار

”جہاں روٹی مزدور کی تنخواہ سے مہنگی ہو جائے ،وہاں دو چیزیں سستی ہو جاتی ہیں ایک عورت کی عزت اور دوسری مرد کی غیرت“ ( صلاح الدین ایوبی )

شاید اسی وجہ سے غربت اور افلاس انسان سے جانے کیا کیا کرا دیتی ہے۔دو وقت کی روٹی اور رہنے کا چھت کا آسرا بعض اوقات معاشرے کی ٹھکرائی ہوئی ،محبت کی ماری اور ظلم وستم کا شکار ہوئی عورتوں کو بازار حسن میں بار بار بِکنے کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔اور یہ بے بس عورتیں محض چند روپوں کی خاطر اپنی مجبوریوں کے باعث عصمتوں کے سودے کرنے کو تیار ہو جا تی ہیں۔بعض اوقات یہ اقدام انکو مجبور کر دینے کے باعث بھی اُٹھانا پڑ جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں ہر مرضی انکی ہی چلتی ہے۔عورت سے دل بہلایا جاتا ہے کہ کھلونے سے زیادہ اہمیت جو نہیں دی جا تی ہے کہ جب جی چاہا کھیل لیا اور جب چاہا توڑ دیا ۔اسی وجہ سے مایوس ہو کر حساس طبیعت رکھنے کے سبب جلدی بازی میں وہ اپنا کچھ بازار حسن میں رات کے اندھیرے میں لوٹا دیتی ہیں۔
بقول ساغر لدھیانوی
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا

پاکستان میں بہت سی نوجوان خواتین نا چاہتے ہوئے بھی اس بازار کا حصہ ہیں اور انکی مجبوری کے خریدار بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ بعض چونکہ وہیں جنم لیتی ہیں تو انکے پاس راہ فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے۔اور اگر کوئی اس کالے بازار سے راہ فرار کی کوشش کرے بھی تو یا تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے یا پھر عمر بھر کی قید تنہائی اسکا مقدر بن جاتی ہے یا پھر دوسرے کے لئے اسکی مثال عبرت کا نشان بن جاتی ہے ۔اسی وجہ سے رات کے اندھیرے میں لگنے والے کالے بازار (بازار حسن) کی رونق قائم ودائم ہے۔گھر سے دور رہنے والوں کی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے قائم ہونے والے بازار حسن ہر معاشرے کا حصہ ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں اسطرح کھلے عام یہ بازار تو نہیں چل رہے ہیں مگر لاہور میں ہیرا منڈی اور کراچی میں ایک مشہور روڈ پر قائم بازار حسن کی شہرت ملک سے باہر تک ہے۔اگرچہ اسطرح کے بُرے کاموں میں ملوث ہونے کا اسلامی تعلیمات سے کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ایسے کاروبار کی آمدنی حلال کے زمرے میں آتی ہے مگر قانون کے رکھوالوں کے دم سے آج بھی یہ گھناﺅنا کاروبار چل رہا ہے بلکہ کچھ تو قانون کی سرپرستی میں بھی چلتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ تو لمبے ہوتے ہیں نا؟

بقول بازار حسن کی ایک خاتون کہ ” میں کالج کے بعد جاب کے لئے گئی تو جاب نہیں ملی ،چند ہزار روپے کی نوکری کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں مگر جب شادی کے بعد خاوند کے کام کاج کے قابل نہ رہنے کے سبب نوکری تلاش کرنی چاہی تو سب کو اپنی ہوس کے عوض نوکری دینے کی خواہش تھی بالآخر محض اپنے مطلب کو پورا کرنے کے عوض جب کسی نے پانچ سو روپے دے دیئے تو میں نے شوہر کی بیماری اور گھریلو حالات کی بناء پر اسی بازار سے اپنی زندگی جوڑ لی کہ لوگ اپنے مطلب کی خاظر تو بڑی بڑی رقوم خرچ کر دیتے ہیں مگر کسی حق دار کی جائز طریقہ کار سے مدد نہیں کر تے ہیں اور ملازمت کہاں آسانی سے ہاتھ آتی ہے اور سوچا ہے کہ جب اتنے پیسے ہو گئے کہ اپنا مکان بنا سکوں تو یہ کام چھوڑ دوں گی“۔

بازار حسن میں بیشتر خواتین ایسی آتی ہیں جن کو انکے شوہر بچوں سمیت طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دیتے ہیں اور واپسی کا کوئی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس بازار کا رخ اختیار کر لیتی ہیں کہ ایسی خواتین کو بہت کم گھر والے قبول کر تے ہیں اور بالخصوص اپنی پسند سے شادی کرنے والے خواتین تادیر نبھا قائم نہ رہنے کی وجہ سے یا محبت کی راہ میں مطلب پورا ہوجانے کے بعد چھوڑے جانے کے بعد انکا ٹھکانہ یہی بازار حسن بن جاتا ہے یا وہ یہاں کسی نہ کسی طور پہنچا دی جاتی ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کالے بازار کا حصہ بن جاتی ہیں۔کیونکہ انکا مقدر جو سیاہ ہوچکا ہوتا ہے اسی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں اپنی خوشی کو مار کر جیتے جی زندہ لاش بن کر اپنی زندگی کو پورا کرتی ہیں ۔کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ طلاق یافتہ خواتین سے بہت کم لوگ ہی شریک سفر کے طور پر زندگی بھر ساتھ نبھاتے ہیں؟

مردوں کے اس سفاکانہ معاشرے میں عورت مختلف ناموں سے بکتی رہتی ہے ۔تاہم یہ کالے بازار تو انسانیت کے کھلا چیلنج ہیں۔ یہاں نہ جانے کتنی لاچار ،بے بس اور مجبور عورتوں کی عصمت کھلے بندوں ثناء خواں تقدیس مشرق کا مذاق اُڑاتی نظر آتی ہیں؟ہے کوئی جو معاشرے کے اس رستے ہوئے ناسور کا علاج کر سکے ورنہ حوا کی بیٹی جانے کب تک یوں ہی سربازار بکتی رہے گی اور یہ بازار حسن یوں ہی بدنما داغ کی صورت ہماری اخلاقیات پر تازیانے لگاتی رہیں گے؟
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522836 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More