کروناوائرس نے پوری دنیاکوڈراکررکھ دیاہے جوڈرموت
اورزندگی کے درمیان کاہے مگراس میں ایک ایساطبقہ بھی ہے جواپنی جان کی
پرواہ کیے بنا جان ہتھیلی پررکھ کر رپورٹنگ کررہاہے اوردنیاکواس ان دیکھی
بلا سے اگاہ کیے ہوئے ہیں اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سمری جاری کی
ہے کہ خدانخواستہ کوئی صحافی کروناکے مرض میں مبتلاہوتاہے تو اس کاعلاج مفت
کیاجائے گا اور ایک لاکھ روپے امدادبھی دی جائے گی اوراگرصحافی اس مرض کی
وجہ سے مرجاتاہے تواسے شہیدکادرجہ دیاجائے گا اورہرماہ اس کے خاندان کو
10,000روپے امدادبھی دی جائے گی مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت نے
جواقدامات کیے ہیں وہ انکی نذرمیں درست ہیں مگرراقم کاسوچنایہ ہے کہ اب
حکومت کی امدادکیلئے ہمیں زبردستی کرونا کے گلے پڑناہوگاحالانکہ چاہیے تویہ
تھاکہ علاقائی صحافیوں کیلئے امدادکااعلان کیاجاتاکیونکہ یہ وہ طبقہ ہے
جونہ کسی سے کچھ مانگتاہے اورنہ اتنے دنوں کے کریک ڈاؤنکے بعدگھرمیں کچھ
باقی ہے ۔ تقریباعرصہ پانچ سال سے آرٹیکل لکھ رہاہوں اورسات سینکڑوں سے
زائد آرٹیکلز لکھ چکاہوں مگراس پانچ سال کے عرصہ میں بیسوں دفعہ محسوس
ہواہے کہ میرے آرٹیکلز لکھنے کامیرے معاشرے اور ملک کو فائدہ بھی ہورہاہے
جب کوئی کال کرکے آرٹیکلز کی تعریف کرے توایک امیدپیداہوتی ہے کہ اﷲ پاک کے
حضورسرخروضرور ہونگے اس کے برعکس جب کوئی کال کرکے یافیسبک پرکمنٹ کرکے
دھمکی دیتاہے کہ فلاں آرٹیکل میں آپ نے فلاں علاقائی سیاستدان کانام لکھااس
کا ازالہ بھگتناپڑے گاتودماغ جسم میں چھوٹے سے دل کو ڈرانے میں لگ جاتاہے
مگرمیرے بھائی میرے دوست اورمیرے سینئرزمجھے کہتے ہیں کہ آپ حق سچ پرہیں
اسی لیے توآپ کودھمکیاں مل رہی ہیں توکوئی کہتاہے آپ پریشان نہ ہوں ہم آپ
کے ساتھ ہیں بھائی کہتے ہیں آپ ہمارافخرہیں اگرکوئی آفت آئی تواسے پہلے ہم
سے ٹکراناہوگا ۔ اس دوران بیوی پریشان ہونے کے بجائے کہتی ہے مجھے آج خوشی
ہورہی ہے کہ آپ اپنے قلم کے ساتھ ایمانداری کررہے ہیں ان صحافیوں کی
چادراوڑھے سیاسی ٹاؤٹ اور دونمبرلوگوں سے بہترہے سچ ہی لکھیں جس کا ہمارے
آقاﷺ نے باربارحکم دیاہے۔جب آرٹیکلز رائٹرمیں کچھ نام بناتو کچھ اداروں نے
اعزازی نمائندگی کی آفرکی تواپنے سینئراورمحسن دوست جناب حسین اعجاز عاشر
صاحب سے مشورہ کیااب جناب کا ذکرہواہے تواپنے قارائین کوبتاتاچلوں میں نے
ابھی 100کے قریب آرٹیکلز لکھے تھے تومیرے علاقے کے سیاستدانوں کے ٹاؤٹ
لوگوں نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں تومیں نے محترم حسیب اعجاز صاحب
کوفون کیااورمعاملات سے آگاہ کیاتوانہوں نے بہت ہی پیاربھرے انداز میں کہا
علی جان صاحب آپ کالم نگارنہیں میرے بھائی ہیں اورہربدھ کوروزنامہ آفتاب
میں آپ کا آرٹیکل پبلش ہواکرے گا اورآپ نے ضروربھیجنا ہے کئی بارتویہ ہواکہ
حسیب صاحب نے خودمجھے کال کی کہ آپ کاآرٹیکل نہیں آیااس بات میں کوئی شک
نہیں کہ میں نے آج ہزارکے قریب آرٹیکلزلکھ چکاہوں تو اس میں حسیب اعجاز
عاشرصاحب کا بہت بڑاہاتھ ہے اگرآج میں خود کوکالم نگارکہواتاہوں توجناب کا
چہرہ میرے سامنے آجاتاہے ۔قارائین تومیں نے حسیب اعجاز عاشر صاحب سے مشورہ
کے بعد کالم نگاری سے خبرگاری کے میدان میں کود پڑاکسی ادارے نے مجھے
بیوروچیف بنایاتوکسی نے ڈسٹرکٹ رپورٹرکاٹیگ لگادیاتوکسی نے ڈسٹرکٹ جنرل
رپورٹرکی مہرلگادی مگراب محسوس ہوتاہے کہ کالم نگاری اورخبرنگاری میں واضع
فرق ہے کیونکہ کالم نگاری میں ہم اپنے علاقے کے مسائل لکھتے ہوئے کسی
سیاستدان کونہیں رعایت نہیں کرتے (رعایت سے مراد پگڑی اتارناہرگز
نہیں)مگرخبرنگاری میں جب تک علاقائی سیاستدان،وڈیرے ، اسسٹنٹ کمشنر سے لے
کر منشی تک کی خوشامدکرتے رہیں توگنے چنے صحافی ہیں مگرجب ان کے کالے کرتوت
شائع کرنے کی کوشش کی تو صحافی کی خیرنہیں ۔میں نے اپنی صحافت کی اس زندگی
میں ایسے ہزاروں علاقائی صحافی دیکھے ہیں بلکہ اب تویہ ریت ہی بن گئی ہے کہ
ہزراوں لاکھوں کی سیکورٹی دیتے ہیں اوروقت آنے پریازیادہ پیسے کی مدمیں اسے
صبح اپنے ہی اخبارمیں اپنے سٹیشن سے لاتعلقی کاپروانہ ملتاہے مگراب وہ وقت
ہوتاہے جب صحافت کا شوق مجبوری بن چکاہوتاہے ۔اگریہاں میں جناب
رشیداحمدنعیم کاذکرنہ کروں توسراسرناانصافی ہوگی کیونکہ اگرمیری کالم نگاری
میں نکھارآیاہے تورشیداحمدنعیم صاحب کابڑاہاتھ ہے ایک بارنہیں کئی باران کے
کہنے پرکرنٹ ایشوز پرآرٹیکلز لکھے کیونکہ کہتے ہیں نہ وقت دی نماز بے
وقتیاں ٹکراں ‘‘کرنٹ ایشوز پرلکھنے کی وجہ سے اچھی کوریج بھی ملی اب
پاکستان ،بھارت سعودی عرب کے نیوز پیپرمیں آرام سے جگہ مل جاتی ہے ۔کچھ لوگ
کہتے ہیں کہ فلاں صحافی سیاستدانوں اوربڑے افسروں سے اثرورسوخ بنائے ہوئے
ہے اسکی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں مگران لوگوں کو بتاتاچلوں علاقائی
صحافی کی انگلیاں گھی میں ضرورہوسکتی ہیں مگراخبارات اورٹی وی چینلزوہ گھی
انگلیوں سمیت کاٹنے کیلئے اوزارتیز کیے بیٹھتے ہیں اورعلاقائی صحافی
توہروقت بلیک میل ہوتارہتاہے کبھی اپنانام بچانے کیلئے توکبھی اپنے ادارے
سے جداہونے کیلئے رات دن ایک کرتارہتاہے مگروقت آنے پر یہ ادارے پوچھتے ہی
نہیں میرے ایک موسٹ سینئرصحافی قومی اخباروچینل کے نمائندے نے ایک لڑکی کو
آگ لگنے کی ایک خبربریک کی تھی تودوسرے چینل پر اس کے خلاف نیوز چل گئی تھی
کہ اس نے آگ لگوائی ہے مگرافسوس کہ ادارہ ساتھ دیتامگراس نے صفائی مانگنے
پرتل گئے اورمجھے آج بھی یادہے وہ کس قدرپریشان تھا یہاں تک کہ کئی دنوں تک
اپنے گھرکوبھی چھوڑناپڑگیاتھا۔ ادراے میں بیٹھے افسر صرف علاقائی صحافی کو
کال کرکے کسی خبرکی رپورٹ طلب کرتے ہیں توعلاقائی صحافی روٹی کھاتے ہوئے
نوالہ منہ میں لیے بھاگ پڑتاہے اورسچ پرمبنی رپورٹ کئی مخالفتوں کے باوجود
سچ پرمبنی رپورٹ ادارے کو ارسال کرتاہے ۔گرمی ،سردی،گولہ باری،آندھی ،
طوفان، گروپوں کاتصادم میں علاقائی صحافی بغیرکسی حفاظت کے جان ہتھیلی
پررکھ کر اپنے اخباراورچینل کیلئے رپورٹنگ کرنے پہنچ جاتاہے میں صرف اپنے
علاقائی صحافی بھائیوں سے صرف اتناکہوں گاکہ اگرہم علاقائی صحافی خبریں نہ
بھیجیں تواخبارات اورٹی وی چینلز پر صرف نیشنل اورانٹرنیشنل خبریں ہونگے
اورچینل ،اخبار کسی پت جھڑسے کم نہ ہوگاعلاقائی صحافی کوتنخواہ کاٹکانہیں
ملتاالٹاوہ ادارے کو پیسے کھلاتاہے اورباتیں سنتاہے ۔کچھ سوالوں کے جواب
ہمیں آج تک نہیں ملے: کہ ہم ایسے اداروں کیلئے اپنے بچوں کاپیٹ کرجن
کوکھلارہے ہیں وقت آنے پر ہماراساتھ کیوں چھوڑدیتے ہیں؟ ہم جن اداروں کیلئے
رات دن گرمی سردی کی پرواہ کیے بنارپورٹنگ کرتے ہیں وہ ہمیں کب قبول کریں
گے ؟علاقائی صحافی کب تک ان اداروں کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے اپنے بچوں کو
بھوکامارتا رہے گا؟جن اداروں کیلئے گھروالوں سے زیادہ جس ادارے کو
ویلیودیتاہے وہمیں کب عزت دیں گے؟اپنی قلم سے سچ لکھتے لکھتے کب تک موت کی
نیدسوتے رہیں گے؟ صحافی برادری کے چندلوگ جو بڑے شہروں میں مقیم ہیں صرف
وہی مراعات اورفائدے اٹھاتے ہیں کیاعلاقائی صحافی کاحق نہیں؟کب تک جیب سے
خرچ کرکے بھی مخالفتیں مول لیتے رہیں گے ؟جیل یاتراکب تک علاقائی صحافی
کامقدربنتی رہے گی؟مخالفتوں اورکانٹوں پرچلنے کے باوجود کب خوشامدی
اورچاپلوسی کی مہرکب تک مقدربنی رہے گی؟ صحافیوں کیلئے بنائی گئی تنظیمیں
کب اپنے مفاد کوچھوڑ کر علاقائی صحافی کیلئے عملی اقدامات کریں گی؟
|