وقت کے لامحدود خزانوں سے ہمیں چند محدود ایام ملتے ہیں.
ہم اس وقت کو زندگی کہتے ہیں، اسے گزارتے ہیں خوشیوں کے ساتھ، غم کے ساتھ،
محفلوں میں، تنہائی میں، محنت کے ساتھ، آرام کے ساتھ، خلق خدا کی خدمت میں
اور بعض اوقات مجبوری بھی اس فہرست میں شامل ہوتی ہے. لیکن مجبوری دیمک کی
طرح ہمارے وقت کو چاٹ لیٹی ہے. لہٰذا بات یہ ہے کہ وقت جیسا بھی ہو گزر
جاتا ہے. یہاں ایک نقطہ آپ سب کی نظر کروں گا کہ ہماری زندگی وقت ہی ہے.
لیکن زندگی عارضی ہے جب کہ وقت تمام قید سے آزاد ہے. یعنی کہ زندگی کا وقت
گزر جاتا ہے لیکن وقت کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے،اور ایک کے بعد ایک زندگی
کو وقت عنایت کرتا ہے. انسان وقت کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور
وہ سمجھتا ہے کہ منزلیں طے ہورہی ہیں، فتوحات ہو رہی لیکن آخر کار یہ گھوڑا
اپنے سوار کو گرا کر اپنے نئے سوار کی تلاش میں محو ہوجاتا ہے. دوسری جانب
یہ نقطہ بھی ہے کہ ہم وقت کو بچاتے ہیں. لیکن ایک دن ملک الموت آکر ہمارے
کان میں کہتا ہے کہ وقت ختم ہوگیا. یہاں ظلم یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا جمع کیا
ہوا خرچ بھی نہیں کر پاتے اور وقت تو شداد کو اس کی بنائی ہوئی دنیاوی جنت
دیکھنے کا بھی موقع نہیں دیتا اور کیسے اس کی چاہت و کوشش کو منزل کے قریب
لا کر لا حاصل کردیتا ہے. گویا کہ وقت ہماری کامیابیوں کا انتظار نہیں کرتا
اور نہ ہی ہماری چاہتوں کی پرواہ بلکہ وقت کی محنت اور زندگی کی کمائی، وقت
خود برباد کر دیتا ہے. لہٰذا جب یہ راز منکشف ہوتا ہے تو ہم بےبسی کی تصویر
بنے ہوتے ہیں. گویا کہ جو لوگ اپنی زندگی کا معاوضہ اپنے وقت میں وصول کرنا
چاہتے ہیں، وہ اکثر برباد ہوجاتے ہیں. کیونکہ دراصل یہ زندگی، یہ عمر حیات
کسی اور وقت، زندگی کے لیے محنت کا زمانہ ہے. اور وہ وقت حقیقتاً عارضی
نہیں ہے. جبکہ یہ وقت جس میں ہم جی رہے ہیں یہ عارضی ہے. یہ زندگی کسی اور
زندگی جو کہ ہمیشہ کے لیے ہے اس کی طرف ایک قدم ہے. لہذا یہ وقت بھی گزر
جائے گا جس میں ہم جی رہے ہیں. بیشک اس وقت تمام دنیا کورونا جیسے متعدی
مرض سے لڑ رہی ہے. لیکن میں یہاں کہنا چاہوں گا کہ یہ لڑائی بھی عارضی ہے
کیونکہ وقت عارضی ہے. اور جیسے یہ وقت گزر جائے گا یہ مرض بھی گزر جائے گا.
کیونکہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور وقت کوئی سا بھی ہو ایک نہیں رہتا،
اونچ نیچ ہی زندگی کا حسن ہے. ساری دنیا اس موقع پر مایوسی کی تصویر بنی
ہوئی ہے،اور ہر جگہ فقر و فاقہ کا عالم ہے اور تمام بنی نوع پریشان ہے.
لہٰذا ان کی اس پریشانی کا توڑ سلطان محمود کی انگوٹھی پر لکھا وہ جملہ ہے
جو کہ اس نے مایوسی و پریشانی کی حالت میں اپنے غلام ایاز سے لکھوایا تھا.
جس کو دیکھنے کے بعد سلطان رنج میں بھی خوش رہنے لگ گیا تھا اور خوشی میں
بھی زیادہ خوش نہیں رہتا تھا. وہ جملہ کوئی اور نہیں یہی تھا کہ " یہ وقت
بھی گزر جائے گا". اس جملہ پر جیسے ہی سلطان محمود کی نظر پڑتی تھی اسے
خوشی اور غم دونوں عارضی محسوس ہوتے تھے. اس جملہ سے کسی بھی انسان کو
محتاط رہنے کی ہدایت مل سکتی ہے اور یہ جملہ میانہ روی سے زندگی گزارنے کا
درس دیتا ہے. کیونکہ وقت اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے. اس دوران جو لوگ وسیع
تناظر میں کائناتی تخیل کے مطابق کام کرتے ہیں یعنی جنکی سوچ بڑی ہوتی ہے
اور وہ جو اپنے وسیع الذہن کے ساتھ ساتھ وسیع القلب ہوتے ہیں جنکا مقصد
انسانیت کی فلاح و بہبود ہوتی ہے وہ ہمیشہ قابل ذکر اور قابل قدر رہتے ہیں.
انھوں نے زمانے سے وقت کی قیمت حاصل نہیں کی ہوتی بلکہ اس سب سوچ سے رہا
ہوکر دکھی انسانیت کی خدمت میں محو ہوتے ہیں. لہذا آج ہر زمانہ ان کا اپنا
زمانہ ہے، کوئی زمانہ ان کے ذکر سے خالی نہیں ہے. یعنی کہ اگر اس مشکل گھڑی
میں ہم سب اپنی طرف سے وسیلہ بن کر دکھتی اور سسکتی انسانیت کی خدمت کریں
گے بغیر کسی غرض کے تو بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہم دنیا کی تاریخ میں
اپنے آپ کو سنہری الفاظ میں درج کروا لیں گے. یہی صحیح وقت ہے جب ہر کوئی
کسی دوسرے کی مدد کرکے اپنے گناہ اور داغ دھو سکتا ہے. ہم سب مل کر انسانیت
کی اتنی خدمت کریں کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہ ملتی ہو،اور یہی وقت کا
تقاضا ہے. کیونکہ یہ وقت بھی گزر جائے گا. اور پھر ممکن نہیں کہ دوبارہ
ایسا موقع ملے جب تمام دنیا یگانگت کی تصویر بنی ہوئی ہو. لہٰذا جو وقت
میسر ہے اس کو نیک اور صالح کاموں میں صرف کردیں. تاکہ آپ کے یہ سارے نیک
کام آپکی دوسری اور مستقل زندگی میں راحت و سکون بن جائیں اور رہتی دنیا تک
آپ کو فنا نہ ہونے دیں. |